احمد ندیم قاسمی کی نظم ملی نغمہ خدا کرے میری ارض پاک پر اترے کی تشریح
اس آرٹیکل میں احمد ندیم قاسمی کی نظم ملی نغمہ خدا کرے میری ارض پاک پر اترے کی تشریح پیش کیا گیا ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔
شعر1
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے۔ وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
مفہوم: اللہ کرے میرے وطن پر ایسی بہار آئے جو کبھی ختم نہ ہو۔
تشریح: شاعر دعا کرتا ہے کہ وطن عزیز پر ایسی بہار (ترقی، خوشحالی) آئے جو کبھی زوال پذیر نہ ہو۔ یہاں “فصلِ گل” ایک علامتی اظہار ہے، جو امن، ترقی، خوشبو، اور خوشی کی نمائندگی کرتا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ یہ خوشیاں ہمیشہ قائم رہیں۔
شعر 2
یہاں جو پھول کھلے وہ کھِلا رہے برسوں۔ یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
مفہوم: یہاں جو بھی ترقی، خوشی یا خوبصورتی پیدا ہو، وہ پائیدار ہو اور زوال نہ آئے۔
تشریح: شاعر وطن کی ایسی ترقی اور خوشحالی کی دعا کرتا ہے جو وقت کے ساتھ ختم نہ ہو۔ “خزاں” زوال اور دکھ کی علامت ہے، اور شاعر کہتا ہے کہ وطن پر ایسی خوشیاں ہوں کہ خزاں آنے کی جرأت بھی نہ کر سکے۔
شعر 3
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے۔ اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
مفہوم: جو بھی خوشحالی یا فلاح اس سرزمین پر آئے وہ دیرپا اور بے مثال ہو۔
تشریح: سبزہ یہاں خوشحالی، سرسبزی، اور ترقی کی علامت ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سرسبز و شاداب رہے، اور ایسی ترقی کرے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہ ملے۔
شعر 4
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں۔ کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
مفہوم: اللہ کرے ایسی برکتیں ہوں کہ بنجر زمین بھی زرخیز ہو جائے۔
تشریح: یہاں شاعر بارش کو اللہ کی رحمت اور برکت کی علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایسی فیاضی ہو کہ سخت اور بے جان پتھر بھی سبزہ اُگلنے لگیں، یعنی ہر طرف زندگی اور نشوونما ہو۔
شعر 5
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن۔ اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
مفہوم: اللہ کرے وطن کی عزت و وقار کبھی نہ جھکے، اور اس کا حسن زمانے کے تغیّرات سے متاثر نہ ہو۔
تشریح: یہ شعر وطن کی عزت، خودداری اور خوبصورتی کی دعا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ وطن ہمیشہ باوقار، خودمختار، اور خوبصورت رہے، اور زمانے کے نشیب و فراز اسے متاثر نہ کر سکیں۔
شعر 6
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال۔ کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
مفہوم: ہر شہری علم، فن اور تہذیب میں اعلیٰ مقام حاصل کرے اور کوئی بھی غمزدہ یا محروم نہ ہو۔
تشریح: یہاں شاعر فرد کی ترقی کی بات کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وطن کا ہر فرد مہذب، تعلیم یافتہ، اور فنون میں ماہر ہو۔ کسی پر مایوسی یا غریبی کا سایہ نہ ہو۔ یہ ایک مثالی معاشرے کا تصور ہے۔
شعر7
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے۔ حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
مفہوم: اللہ کرے میرے کسی بھی ہم وطن کے لیے جینا جرم نہ بنے اور زندگی بوجھ نہ ہو۔
تشریح: یہ شعر انسانیت اور سماجی انصاف کی انتہا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی زندگی کے لیے شرمندہ یا مجبور نہ ہونا پڑے۔ وطن میں ایسا عدل و امن ہو کہ زندگی خوشگوار اور قابلِ فخر ہو۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from Ilmu علمو
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.