ادا جعفری کی غزل کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں کی تشریح

ادا جعفری کی غزل کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں کی تشریح

ادا جعفری کی یہ غزل محض عشق کا بیان نہیں، بلکہ ایک عورت کے داخلی شعور، اس کی جدوجہد، اور معاشرتی تضادات کا آئینہ ہے۔ ہر شعر میں محبت، خودی، سوال اور سکوت کا ایک الگ رنگ ہے۔ کہیں محبوب کی جدائی ہے، کہیں تقدیر سے سوال، کہیں عورت کے مقام کی تلاش اور کہیں دل کی بےقراری۔ ادا نے نرم لہجے میں وہ سچ کہے ہیں جو اکثر چیخ بن کر بھی نہیں سنے جاتے۔ اس آرٹیکل میں ادا جعفری کی غزل کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

شعر1۔   کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں        کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
مفہوم
:   شاعرہ حیران ہے کہ آخر کس بات پر اسے غرور تھا، کیونکہ اس نے تو وہی راستہ چنا جو اسے دکھایا گیا، اپنی مرضی سے نہیں چلا۔
تشریح:   ادا جعفری اس شعر میں عورت کی اُس حالتِ زندگی کو بیان کر رہی ہیں جو صدیوں سے معاشرتی ڈھانچے میں مقید ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتیں کہ انہیں کس بات پر فخر یا غرور تھا، کیونکہ زندگی میں جو بھی راستہ چنا، وہ ان کی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی اور کے اشارے پر تھا۔ یہ ایک گہرا استعارہ ہے اُس معاشرتی پابندی کا جو عورت کو خود فیصلہ لینے سے روکتی ہے۔ اس شعر میں ایک طنز بھی چھپا ہے، جو ان لوگوں پر ہے جو عورت کو “باعزت مقام” دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر اس کے فیصلے اس کے اپنے نہیں ہونے دیتے۔ یہ شعر عورت کی بے بسی، خود فریبی اور معاشرتی روایات کے زیرِ اثر زندگی گزارنے کا کرب ظاہر کرتا ہے۔ “مغرور” ہونا ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان میں تب پیدا ہوتی ہے جب وہ سمجھے کہ اس کی کچھ حیثیت ہے۔ لیکن شاعرہ یہاں کہتی ہیں کہ یہ احساس شاید غلط تھا، کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے کبھی کچھ نہیں چُنا۔
یہ خود احتسابی کا ایک لمحہ ہے جو زندگی کے تجربات کی بنیاد پر آتا ہے۔

 شعر2۔  تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا         یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
مفہوم
:   محبوب کی عدم موجودگی میں دل کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی قیمتی چیز رکھ کے بھول جائے — بےچینی، خلا، اور ادھورا پن۔
تشریح:   یہ شعر محبت اور جدائی کے جذبات کا عکاس ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ جب محبوب ساتھ نہیں ہوتا، تو دل بےقرار رہتا ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہے جیسے ہم کوئی اہم چیز کہیں رکھ کر بھول جائیں اور ہمیں ہر لمحہ اس کی کمی کا احساس رہے۔ یہ استعارہ (تشبیہ) بڑی باریکی سے اس جذباتی خلا کو واضح کرتا ہے جو کسی اپنے کی غیرموجودگی سے پیدا ہوتا ہے۔ “عجب حال” ایک ایسی کیفیت ہے جو لفظوں سے بیان نہیں کی جا سکتی، بس محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہاں شاعرہ نہ صرف اپنے دل کی حالت بیان کر رہی ہیں بلکہ قاری کو بھی اس تجربے میں شریک کر رہی ہیں۔ یہ ایک گہری انسانی کیفیت ہے، جو نہ صرف محبوب بلکہ کسی عزیز، مقصد یا خواب کے کھو جانے سے بھی ہو سکتی ہے۔
شاعرہ کا یہ اندازِ بیان قاری کو اپنی ذاتی یادوں اور محرومیوں سے جوڑتا ہے، جو اس شعر کی تاثیر کو دو چند کر دیتا ہے۔

 شعر3۔  تیرے لیے تقدیر مری جنبشِ ابرو اور میں ترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں
مفہوم
:   میری تقدیر تمہارے اشارے پر بدلتی ہے، اور میں تمہاری نظر کے ایک اشارے پر نظریں جمائے بیٹھی ہوں۔
تشریح:   یہ شعر محبوب کے اختیار اور شاعرہ کی بے بسی کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ “جنبشِ ابرو” سے مراد محض ایک معمولی اشارہ ہے، یعنی شاعرہ کے لیے محبوب کی مرضی، ایک چھوٹے سے اشارے کی مانند ہے جس پر اس کی پوری تقدیر منحصر ہے۔ یہ نہ صرف عشق کی شدت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ عاشق (یا عاشقہ) کی زندگی، اس کے فیصلے، اس کی خوشی غم سب کچھ محبوب کی نگاہ پر ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ وہ تقدیر جیسے عظیم فلسفے کو نظر انداز کر کے صرف اس ایک نظر کے اشارے کی منتظر ہے۔
یہ بات بھی ظاہر کرتی ہے کہ محبت میں عاشق کا اختیار کتنا محدود ہوتا ہے اور وہ کس قدر اپنے محبوب کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ یہاں عورت کی کیفیت اور اس کی محبت کی انتہا، اپنی تمام تر نزاکت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

 شعر4۔  صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنتِ انساں   میں جنتِ انساں کا پتا پوچھ رہی ہوں
مفہوم
:   میرے پاؤں کے نیچے ہمیشہ سے ہی وہ مقام تھا جسے جنت کہا جاتا ہے، مگر میں ساری عمر اسی جنت کو تلاش کرتی رہی۔
تشریح:   یہ شعر عورت کی عظمت اور اس کے مقام کی علامت ہے۔ حدیثِ نبوی ہے کہ “جنت ماں کے قدموں تلے ہے” — اسی پس منظر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ صدیوں سے جنت انسان (انسانیت کی اعلیٰ ترین حالت) عورت کے پاؤں تلے ہے، مگر افسوس کہ وہ خود اس جنت کو تلاش کرتی رہی۔ یہ ایک تلخ سچ ہے کہ عورت، جو خود محبت، قربانی، تخلیق اور تربیت کی علامت ہے، ہمیشہ معاشرے میں اپنے مقام کی تلاش میں بھٹکتی رہی ہے۔ یہ شعر عورت کی قدر و قیمت کو اجاگر کرتا ہے اور اس تضاد کو ظاہر کرتا ہے جو معاشرے کی سوچ اور عورت کے حقیقی مقام کے درمیان ہے۔ شاعرہ نہ صرف یہ دکھ بیان کر رہی ہیں بلکہ قاری کو بھی غور و فکر کی دعوت دے رہی ہیں کہ کیوں ایک عظیم ہستی اپنی شناخت سے محروم ہے۔

 شعر5۔  دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے     کس آس پہ اے سنگِ سرِ راہ چلی ہوں
مفہوم
:   لوگ دل کو محض خون کا قطرہ کہتے ہیں، مگر میں پھر بھی پتھروں کی راہ پر امید لیے چلتی رہی ہوں۔
تشریح:   یہ شعر دل کی اہمیت، اس کی نرمی، اور جذباتی طاقت کو بیان کرتا ہے۔ لوگ دل کو ایک معمولی خون کا قطرہ سمجھتے ہیں، یعنی اس کے جذبات کو نظرانداز کرتے ہیں، مگر شاعرہ اس دل کی طاقت سے حوصلہ لے کر پتھروں کی سخت راہوں پر چلتی رہی۔  “سنگِ سرِ راہ” ایک علامت ہے مشکلات، بے حسی اور سماجی رکاوٹوں کی۔ یہاں شاعرہ کی حوصلہ مندی اور عزم نظر آتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ دل کو کم تر سمجھا جا رہا ہے، وہ اپنی امید، اپنی تمنا، اور اپنے خوابوں کے سہارے سخت حالات سے ٹکراتی رہی۔ یہ نہ صرف عورت کی، بلکہ ہر حساس انسان کی حالت ہے، جو دنیا کی بے حسی کے باوجود اپنی نرمی اور جذبے کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔

 شعر6۔  قسمت کے کھلونے ہیں اجالے کہ اندھیرے دل شعلہ طلب تھا، سو بہر حال رہی ہوں
مفہوم:  
اجالا ہو یا اندھیرا، یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں۔ میرا دل ہمیشہ روشنی، جوش، اور زندگی کا طلبگار رہا، اس لیے میں ہر حال میں زندہ رہی۔
تشریح:   یہ شعر زندگی کے نشیب و فراز، تقدیر کی ستم ظریفی اور دل کی مستقل طلب کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ اجالا (خوشی) ہو یا اندھیرا (غم)، یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں — یعنی انسان کے بس میں نہیں۔ مگر اس کے باوجود، اُس کا دل ہمیشہ “شعلہ طلب” یعنی روشنی، جوش، اور زندگی کی حرارت چاہنے والا رہا ہے۔ یہ جذبہ اسے زندہ رکھتا ہے، حالات جیسے بھی ہوں۔ یہ ایک عزم اور استقلال کا پیغام ہے، خاص طور پر عورت کے لیے، جو ہر حال میں جینا سیکھ لیتی ہے۔ یہ شعر بھی ایک طرح سے عورت کی حیاتِ مسلسل، برداشت، اور زندگی کے لیے اُس کی خواہش کو خراج ہے۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading