حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کی تشریح
حسرت موہانی کی یہ غزل اردو غزل گوئی کی کلاسیکی روایت کا ایک دلنشین نمونہ ہے، جس میں عشقِ مجازی کی کیفیات کو نہایت لطافت، سوز، اور تہذیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہر شعر ایک مکمل داستانِ درد ہے جو محبوب کی بےوفائی، عاشق کی خاموشی، اور عشق کی قربانی کو نہایت سادگی مگر گہری معنویت سے بیان کرتا ہے۔ غزل میں شاعر کی داخلی کربناکی، ناکام تمناؤں، اور نارسائی کے غم کو الفاظ کی لطیف چادر میں لپیٹ کر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری کے دل کو براہِ راست چھو لیتا ہے۔ محبوب کی بےنیازی کو کبھی طنز کے پردے میں، کبھی حسرت کے انداز میں، اور کبھی روحانی استعاروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر وہ اشعار جہاں شاعر محبوب کے کوچے کی گدائی کو دنیاوی بادشاہی پر ترجیح دیتا ہے، عشق کو ایک اعلیٰ روحانی تجربہ قرار دینے کی مثال ہیں۔ یہ غزل صرف ایک شخصی وارداتِ قلب نہیں بلکہ ایک عہد کی جمالیاتی اور فکری بلند نظری کی آئینہ دار ہے۔ حسرت کی زبان، لہجہ، اور اظہار کی سادگی اس غزل کو اردو ادب کے ان نایاب موتیوں میں شامل کرتی ہے جو ہر دور کے دلوں میں تازہ رہتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں مولاناحسرت کی غزل تجھ کو پاس وفا ذرا نہ ہوا کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس (ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر1۔ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے۔وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کے اس شعر میں شاعر نے “نگاہ یار” یعنی محبوب کی نظر کو ایک روحانی فیض کا درجہ دیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی کو محبوب کی نظر کرم مل جائے، اور وہ اس کے باطنی اسرار و رموز سے آشنا ہو جائے، تو اسے اپنی قسمت پر فخر کیوں نہ ہو؟ یہ صرف حسن ظن یا محبت نہیں بلکہ ایک ایسی بصیرت کی بات ہو رہی ہے جو ظاہر سے باطن تک لے جاتی ہے۔ “آشنائے راز” ہونا صرف محبوب کی قربت حاصل کرنا نہیں، بلکہ اس کی حقیقت، اس کے درد اور اس کے احساسات کو سمجھنا ہے۔ ایسا شخص دنیا کی عام کامیابیوں سے بلند ہو جاتا ہے۔ یہاں شاعر اشارہ دے رہا ہے کہ محبوب کی ایک نگاہ، ایک لمحہ توجہ، انسان کو اتنے مقام پر لے جا سکتی ہے جس کی تمنا ہر عاشق کو ہوتی ہے۔ شاعر نے عشق کے ایک روحانی و فکری پہلو کو اس شعر میں بیان کیا ہے۔
شعر2۔ دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد۔ ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کا یہ شعر عشق کی شدت اور اس کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے عشق نے دلوں کو دنیا و آخرت کے تمام فکروں سے آزاد کر دیا ہے۔ “فکر دوعالم” سے مراد دنیاوی پریشانیاں اور اخروی نجات کی فکریں ہیں۔ جب عشق میں جنون حد سے بڑھ جائے، تو بندہ صرف محبوب کی یاد میں مستغرق ہو جاتا ہے، اور ہر دوسری چیز غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ شاعر دعائیہ انداز میں کہتا ہے کہ خدا کرے تیرے جنون کا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے، کہ یہ جنون ہی دلوں کو پاکیزگی بخشتا ہے۔ یہاں عشق کو ایک باطنی تزکیہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، جو انسان کو ہر طرح کی دنیاوی آلائشوں سے نجات دے دیتا ہے۔ حسرت نے “ترے جنوں کا” کہہ کر محبوب کو مرکز بنایا اور اس کی دیوانگی کو روحانی بلندی کا ذریعہ سمجھا۔
(اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس (ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر3۔ خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کے اس شعر میں شاعر عقل و جنون کے درمیان الٹ پھیر کو بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ عقل کو لوگ دیوانگی کہنے لگے ہیں اور دیوانگی کو ہوش مندی کا نام دے دیا گیا ہے۔ دراصل یہ حسن یار کا اثر ہے جس نے ہر شے کے معنی بدل دیے ہیں۔ “آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے” — یہ مصرعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ محبوب کا حسن اتنا جادو اثر رکھتا ہے کہ وہ ہر تصور کو الٹ سکتا ہے، ہر معیار کو بدل سکتا ہے۔ شاعر یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ عشق میں مبتلا ہو کر جو چیزیں عام لوگوں کو پاگل پن لگتی ہیں، وہی دراصل سچی عقل ہوتی ہیں۔ اور جو چیزیں دنیا عقل کہتی ہے، وہ محض دھوکہ ہوتی ہیں۔ حسرت نے اس شعر میں نہایت فکری انداز میں عشقِ حقیقی کی طاقت اور محبوب کی جمالیاتی تاثیر کو ظاہر کیا ہے، کہ وہ انسانی فہم و ادراک کے تمام پیمانوں کو پلٹ دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
شعر4۔ ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی۔ مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کا یہ شعر عاشق کی عجب خود داری اور فخر آمیز قبولیتِ اذیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ محبوب کے ستم سے خوش ہے، کیونکہ شاید یہی دکھ، یہی جفائیں اسے ان لوگوں میں شامل کر دیں گی جو ممتاز شمار ہوتے ہیں — یعنی “اربابِ امتیاز”۔ عشق کے میدان میں عظمت اور امتیاز کی علامت یہ ہے کہ عاشق نے کتنے دکھ سہے، کتنی قربانیاں دیں، اور کتنے صبر سے محبوب کی بےرخی برداشت کی۔ شاعر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ عشق میں عزت اور شرف، ستم سہنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ محبوب کے ظلم کو عار نہیں، بلکہ عزت سمجھتا ہے۔ یہ انداز خالص عاشقانہ ہے، جس میں درد بھی باعث فخر ہوتا ہے۔ حسرت نے یہاں محبوب کی بےنیازی کو ایک اعزاز کی شکل دی ہے، جو عاشق کے لیے روحانی و جذباتی بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔
(اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس (ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر5۔ غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش۔ وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کے اس شعر میں شاعر نے ایک گہری بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا کے غموں سے نجات چاہتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ محبوب کے درد محبت کو اپنا لے، اس سے ساز باز کرے۔ “ساز باز” کا مطلب یہاں موافقت یا مصالحت ہے۔ یعنی اگر انسان کو دنیاوی پریشانیاں بےچین کرتی ہیں، تو ان کا حل یہ نہیں کہ وہ دنیا سے فرار حاصل کرے، بلکہ اس سے بلند ہو کر عشق کی راہ اپنائے۔ اور عشق میں جو درد ہے، وہ انسان کو دنیاوی رنجشوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ دردِ محبت ایک پاکیزہ، بلند تر دکھ ہے جو انسان کو خودی، قربانی اور ایثار کا شعور دیتا ہے۔ شاعر عشق کو ایک روحانی مشق اور تصفیہ نفس کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اس شعر میں صوفیانہ رنگ بھی جھلکتا ہے، جہاں دنیاوی علائق سے کنارہ کشی کی راہ، عشقِ حقیقی سے جڑ کر ہی ممکن سمجھی جاتی ہے۔
شعر6۔ امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ۔ تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کا یہ شعر ایک دعا بھی ہے اور ایک حقیقت کا بیان بھی۔ شاعر کہتا ہے کہ ہر سمت عاشقوں کے گروہ اس امید میں بیٹھے ہیں کہ کبھی محبوب کی نگاہِ کرم ان پر پڑے گی۔ “نگاہ” یہاں صرف نظر نہیں بلکہ عنایت، محبت اور توجہ کی علامت ہے۔ شاعر دعا دیتا ہے کہ خدا کرے تیری نظر میں ایسی دلکشی، ایسا جذب ہو کہ وہ ہر دل کو لبھائے، ہر آرزو کو پورا کرے۔ یہ شعر عاشقوں کی امید اور محبوب کی شان کو ایک ساتھ سمیٹتا ہے۔ یہ کہنا کہ “اللہ دل نواز کرے” ظاہر کرتا ہے کہ محبوب کی آنکھوں میں بھی وہ کشش ہو جس سے ہر دل کو سکون ملے۔ اس میں ایک نازک التجا اور عاجزانہ خواہش ہے، جو عاشقوں کے اجتماعی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر کی زبان سے نکلی یہ دعا صرف فرد کی نہیں، بلکہ تمام اہلِ محبت کی آواز ہے۔
(اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس (ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر7۔ ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ۔ اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
تشریح۔ مولانا حسرت موہانی کی غزل نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے کا یہ غزل کا مقطع ہے اور اس میں شاعر اپنی عاجزی، تواضع اور مکمل سپردگی کا اظہار کرتا ہے۔ حسرت موہانی کہتے ہیں کہ وہ خود کو محبوب کے کرم کا اہل نہیں سمجھتے، لیکن اب جو کچھ بھی ہے، وہ صرف محبوب کی مرضی پر ہے — وہ چاہے تو عزت دے، سرفراز کرے، یا نظرانداز کر دے۔ اس میں ایک کامل عاجزی اور عشق میں فنا ہونے کا رنگ ہے۔ عاشق نے خود کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ اپنی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کرتا، بس محبوب کی رضا میں راضی ہے۔ “اب آگے تیری خوشی ہے” ایک طرح کا مکمل سپردگی کا اعلان ہے، جو عشق کے آخری مقام، یعنی رضا و تسلیم کی علامت ہے۔ حسرت نے یہاں عشق کے سچے مقام — فنا فی المحبوب — کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.