حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح

حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح

حفیظ جالندھری کی نظم مزارِ قطب الدین ایبک ایک گہری قومی، تاریخی اور جذباتی معنویت رکھتی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے نہ صرف ایک عظیم اسلامی مجاہد اور حکمران قطب الدین ایبک کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے بلکہ اس کے مزار پر جا کر شاعر کو جو روحانی، فکری اور قومی ولولہ حاصل ہوتا ہے، اس کا اظہار بھی نہایت مؤثر انداز میں کیا ہے۔ اس آرٹیکل میں حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح

حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح
شعر 1
:     وہ قطب الدین وہ مردِ مجاہد جس کی ہیبت سے۔یہ دنیا از سرِ نو جاگ اٹھی خوابِ غفلت سے
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری قطب الدین ایبک کو ایک عظیم مجاہد کے طور پر پیش کرتا ہے، جس کی ہیبت اور دبدبہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آمد سے غفلت میں ڈوبی ہوئی دنیا چونک اٹھی، جاگ اٹھی۔ “خوابِ غفلت” سے مراد مسلمانوں کی وہ بے حسی اور کمزوری ہے جو انہوں نے تاریخ کے ایک دور میں اختیار کر لی تھی۔ لیکن جب قطب الدین ایبک نے میدانِ عمل میں قدم رکھا، تو دنیا کو ایک نئی روشنی، ایک نئی بیداری ملی۔ یہ مصرع شاعر کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک فرد بھی اگر نیت، قوتِ ارادہ اور ایمانی جذبے سے لیس ہو، تو وہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ سکتا ہے۔ قطب الدین کی شخصیت یہاں نہ صرف ایک فاتح کی، بلکہ ایک فکری بیداری کے پیامبر کے طور پر سامنے آتی ہے۔

شعر 2:    وہ جس کی تیغِ ہیبت ناک سے سفاک ڈرتے تھے۔وہ جس کے بازوؤں کی دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری قطب الدین ایبک کی شجاعت اور بہادری کو ایک عظیم علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کی تلوار صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ ہیبت اور انصاف کا نشان تھی۔ “تیغِ ہیبت ناک” سے مراد وہ تلوار ہے جو صرف دشمن کے جسم پر نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر بھی خوف طاری کر دیتی تھی۔ سفاک دشمن، جو ظلم و ستم کے عادی تھے، اس تلوار کی دھار سے لرز جاتے تھے۔ دوسری مصرعے میں شاعر مبالغے کے خوبصورت انداز میں کہتا ہے کہ اس کے بازوؤں کی طاقت اور رعب سے “افلاک” یعنی آسمان بھی لرزتے تھے۔ یہ الفاظ محض تعریف نہیں بلکہ اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ قطب الدین کی شخصیت میں ایک ایسی عظمت تھی جو انسانی حدوں سے تجاوز کرتی ہوئی لگتی تھی، گویا قدرت بھی اس کے عمل سے متأثر ہوتی تھی۔ یہ شعر اس کے عزم، ولولے اور قوتِ ایمانی کا عکاس ہے۔

شعر 3:   یہاں لاہور میں سوتا ہے اک گمنام کوچے میں۔پڑی ہے یادگارِ دولتِ اسلام، کوچے میں
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں شاعر قطب الدین ایبک کے مزار کی حالتِ زار کو بیان کرتا ہے، جو لاہور کے ایک “گمنام کوچے” میں دفون ہے۔ شاعر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اتنے عظیم شخصیت کا مزار شہر کے ایک چھوٹے اور بے نشان سے علاقے میں ہے، اور اس کی عظمت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ “یادگارِ دولتِ اسلام” سے مراد وہ عظیم اسلامی ورثہ ہے جو قطب الدین ایبک نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ وہ ایک فاتح، رہنما، اور سپہ سالار تھا، جس کی فتوحات نے اسلام کی سلطنت کو ہندوستان تک پہنچایا۔ تاہم، اس کا مزار ایک معمولی جگہ پر دفون ہے، جو اس کی عظمت کے برخلاف ایک دکھ کا منظر پیش کرتا ہے۔

شعر 4:   میں اکثر شہر کے پُر سوز ہنگاموں سے اُکتا کر۔ سکوں کی جستجو میں بیٹھ جاتا ہوں یہاں آ کر
تشریح: حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری شہر کی روزمرہ کی زندگی، اس کے شور شرابے اور فتنوں سے تنگ آ کر قطب الدین ایبک کے مزار پر آ کر سکون تلاش کرتا ہے۔ “پُر سوز ہنگامے” سے مراد وہ دنیاوی مصروفیات اور جاہ و مال کی دوڑ ہے جو انسان کو ذہنی اور روحانی سکون سے دور کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس، قطب الدین ایبک کا مزار ایک ایسی جگہ ہے جہاں شاعر کو روحانی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ یہاں “سکوں کی جستجو” اس بات کا عکاس ہے کہ شاعر کو دنیا کی فانی زندگی سے کہیں زیادہ روحانی سکون کی طلب ہے، جو اسے قطب الدین کے مزار پر ملتا ہے۔

شعر 5:   تخیل مجھ کو لے جاتا ہے اک پُر ہول میدان میں۔ جہاں باہم بپا ہوتی ہے جنگِ انبوہِ انساں
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری اپنے تخیل کو آزاد چھوڑ کر ایک جنگی منظر میں جا پہنچتا ہے، جہاں انسانوں کی بڑی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔ “پُر ہول میدان” سے مراد وہ کھلا، پر تشویش جنگی میدان ہے جو انسانوں کے درمیان تشویش اور خونریزی کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں انسانوں کی جنگ اس بات کا نشان ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں انسانوں کے درمیان اقتدار، جاہ اور مال کے لیے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ شاعر اس منظر کو اپنے تخیل میں محسوس کرتا ہے، جہاں مختلف اقوام اور نظریات کے لوگ آپس میں جنگ کر رہے ہیں۔

شعر 6:    نظر آتا ہے لہراتا ہوا اسلام کا جھنڈا۔ بہر سُو نور پھیلاتا ہوا اسلام کا جھنڈا
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری اس جنگی میدان میں اسلام کا پرچم لہراتا ہوا دیکھتا ہے، جو ہر طرف روشنی پھیلا رہا ہے۔ “اسلام کا جھنڈا” یہاں ایک علامت ہے جو نہ صرف فتوحات کی، بلکہ اسلام کی سچائی اور برکتوں کا بھی مظہر ہے۔ پرچم کا لہرانا اور اس سے پھیلنے والی روشنی اس بات کا استعارہ ہے کہ اسلام کا پیغام اور اس کی تعلیمات ایک آفاقی حقیقت ہیں، جو دنیا کے ہر کونے میں پھیلتی جا رہی ہیں۔ یہ جھنڈا نہ صرف فتوحات کی نشانی ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی روحانی اور فکری بیداری کا بھی نمونہ ہے۔

شعر 7:   مقابل میں گھٹائیں دیکھتا ہوں فوجِ باطل کی۔ نظر آتی ہے فرعونی خدائی اوجِ باطل کی
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری اسلام کے جھنڈے کے سامنے باطل قوتوں کی طاقت اور ظلم کو بیان کرتا ہے۔ “فوجِ باطل” سے مراد وہ قوتیں ہیں جو ظلم و جبر کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتی ہیں۔ “فرعونی خدائی” سے مراد وہ فرعون کی طرح کی سلطنت ہے جو خود کو خدا کے برابر سمجھتی تھی اور اپنے جاہ و جلال میں غرق ہو کر اللہ کی حکمرانی کو نظر انداز کرتی تھی۔ لیکن شاعر کی نظر میں یہ اوجِ باطل عارضی ہے اور ایک دن یہ ٹوٹ کر رہ جائے گا، کیونکہ اسلام کے جھنڈے کے نیچے سچائی کی قوت ہمیشہ غالب آتی ہے۔

شعر 8:   صدائیں نعرہ ہائے جنگ کی آتی ہیں کانوں میں۔ بلند آہنگ تکبیریں سما جاتی ہیں کانوں میں
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری کے کانوں میں جنگ کی آوازیں اور مسلمانوں کی بلند تکبیریں سنائی دیتی ہیں۔ “نعرہ ہائے جنگ” ان صداؤں کو بیان کرتا ہے جو میدان جنگ میں جنگجووں کے حوصلہ بڑھانے کے لیے بلند کی جاتی ہیں۔ “تکبیریں” اللہ اکبر کے نعرے ہیں جو مسلمانوں کی طاقت، عزم، اور ایمان کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ آوازیں اس بات کی غماز ہیں کہ مسلمان جنگ کے میدان میں صرف فتح کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے نام پر لڑ رہے ہیں، اور یہ نعرے ان کے ایمان کی گہرائی اور قربانی کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔

شعر 9:    نظر آتا ہے مجھ کو سرخرو ہونا شہیدوں کا۔ وہ اطمینان وہ ہنستا ہوا چہرہ امیدوں کا
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری یہاں شہیدوں کی جنت میں کامیابی اور سکون کا منظر دیکھتا ہے۔ “سرخرو ہونا” سے مراد شہیدوں کا کامیاب ہونا اور اللہ کے دربار میں سر بلند ہونا ہے۔ شہیدوں کا چہرہ مسکراتا ہوا اور پُر اطمینان ہوتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے ایمان اور مقصد کی خاطر قربانی دی اور اللہ کے نزدیک کامیاب ہوئے۔ یہ شعر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شہادت کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ شہید کی روح ہمیشہ خوش، مطمئن اور خوشحال رہتی ہے۔

شعر 10:  علم کے سائے میں سلطانِ غازی کا بڑھے جانا۔ سرِ دشمن پہ افواجِ حجازی کا چڑھے جانا
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری قطب الدین ایبک کی شان اور جہاد کو بیان کر رہے ہیں۔ اس شعر میں “علم کے سائے” سے مراد وہ علم ہے جو مسلمانوں کو دین اور دنیا کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ “سلطانِ غازی” سے مراد وہ قائد ہے جو علم اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں آگے بڑھ رہا ہے۔ “افواجِ حجازی” کی طرف اشارہ ہے عرب کے مجاہدین کی طرف جو اسلام کی فتوحات کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ یہ شعر اس بات کا عکاس ہے کہ علم اور ایمان کی روشنی ہی مسلمانوں کو فتح کی طرف رہنمائی دیتی ہے اور اس علم کی بنیاد پر ہی ان کی فوجیں دشمنوں کے خلاف کامیاب ہوتی ہیں۔

شعر 11:   مجھے محسوس ہوتا ہے کہ غازی مرد ہوں میں بھی۔پرانے لشکرِ اسلام کا اک فرد ہوں میں بھی
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری اپنے آپ کو ماضی کے عظیم اسلامی مجاہدین کے لشکر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ وہ خود کو ایک غازی یعنی اسلام کے دفاع میں لڑنے والے سپاہی کے طور پر دیکھتا ہے، جو پرانے لشکر کا فرد ہے۔ اس شعر میں شاعر کا جوش اور جذبہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان بزرگوں کی طرح عظمت کے مقام پر دیکھتا ہے، جو اسلام کے دفاع میں جانوں کی قربانی دینے والے تھے۔ یہ ایک قسم کا روحانی تعلق ہے جس کے ذریعے شاعر نے اپنے آپ کو اسلامی تاریخ کے عظیم ہیروز سے جوڑا ہے۔

شعر 12:  شہادت کے رَجز پڑھتا ہوں میدانِ شہادت میں۔ رَجز پڑھتا ہوا بڑھتا ہوں ارمانِ شہادت میں
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری اپنے اندر شہادت کے لیے جوش و جذبہ محسوس کرتا ہے اور میدانِ جنگ میں جاتے ہوئے “رَجز” یعنی وہ جنگی اشعار پڑھتا ہے جو مسلمانوں کے حوصلے کو بڑھاتے ہیں۔ “ارمانِ شہادت” سے مراد شہادت کے خواب اور اس کی آرزو ہے جو ہر مجاہد کے دل میں ہوتی ہے۔ یہ شعر اس بات کو بیان کرتا ہے کہ شاعر کا دل شہادت کے لیے تڑپ رہا ہے اور وہ میدانِ جنگ میں قدم رکھ کر اپنے اس عزم کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے۔

شعر 13:  عظیم الشان ہوتا ہے یہ منظر پاکبازی کا۔شہیدوں کی خموشی، غلغلہ مردانِ غازی کا
تشریح: حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے اس شعر میں حفیظ جالندھری شہیدوں کی خاموشی کو بہت عظیم اور پاکیزہ سمجھتا ہے۔ “خموشی” سے مراد وہ سکون اور طمأنیت ہے جو شہیدوں کو شہادت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ان کی خاموشی میں بھی ایک عظمت ہے، جو ایک روحانی طاقت کی عکاسی کرتی ہے۔ “غلغلہ مردانِ غازی کا” سے مراد وہ شور ہے جو غازیوں (زندہ مجاہدین) کے حوصلہ اور طاقت سے آ رہا ہے۔ اس منظر میں ایک طرف شہیدوں کی خاموشی ہے، تو دوسری طرف غازیوں کی طاقتور آوازیں، جو اسلام کی فتوحات کے لیے جاگ رہی ہیں۔

شعر 14:  مرا جی چاہتا ہے اب نہ اپنے آپ میں آؤں۔ اسی آزاد دنیا کی فضا میں جذب ہو جاؤں
تشریح:حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کے آخری شعر میں، شاعر اس وجدانی کیفیت میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا کی حقیقتوں سے پرے، آزاد دنیا میں کھو جانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی روح اسی روحانی اور پاکیزہ فضا میں ہمیشہ کے لیے جذب ہو جائے جہاں دنیاوی فکروں اور دکھوں سے آزادی ہو۔ یہ ایک روحانی تسکین کی جستجو ہے، جہاں انسان اپنی حقیقت سے بلند ہو کر اپنے خالق سے جڑتا ہے۔

حفیظ جالندھری کی نظم مزارِ قطب الدین ایبک ایک گہری قومی، تاریخی اور جذباتی معنویت رکھتی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے نہ صرف ایک عظیم اسلامی مجاہد اور حکمران قطب الدین ایبک کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے بلکہ اس کے مزار پر جا کر شاعر کو جو روحانی، فکری اور قومی ولولہ حاصل ہوتا ہے، اس کا اظہار بھی نہایت مؤثر انداز میں کیا ہے۔ اس آرٹیکل میں حفیظ جالندھری کی نظم مزار قطب الدین ایبک کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading