شکیب جلالی کی غزل آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے کی تشریح

شکیب جلالی کی غزل آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے کی تشریح

شکیب جلالی کی اس غزل میں علامتیں، تشبیہات اور استعارات کا بہترین استعمال کیا گیا ہے۔ یہ غزل زندگی کے مختلف پہلوؤں جیسے کہ انسانی رویے، خودداری، ناپائیداری، خوف، خواب، مایوسی، اور حقیقتوں کے ساتھ ٹکراؤ کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ ہر شعر ایک مکمل احساس اور تجربہ لیے ہوئے ہے، جس میں شاعر کی گہری بصیرت اور مشاہدہ بولتا ہے۔ شکیب نے زندگی کی تلخیوں کو نہایت فنکارانہ انداز میں لفظوں میں ڈھالا ہے، جو قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس آرٹیکل میں شکیب جلالی کی غزل آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور بارہویں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

شعر 1      آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے۔ جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
تشریح
:    یہ شعر ایک گہری علامت لیے ہوئے ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے صحن میں کچھ پتھر آ گرے۔ مگر یہ عام پتھر نہ تھے، بلکہ ان “پھلوں” کا بدلہ تھے جو میرے پیڑ نے دیوار کے اُس پار گرائے۔ یہاں “پیڑ” شاعر کے کردار، عمل یا نیکی کی علامت ہے، اور “پھل” اس کی طرف سے لوگوں کو پہنچایا گیا فائدہ۔ مگر بدلے میں اس نے شکریہ یا تعریف نہیں پائی، بلکہ مخالفت اور اذیت (پتھر) پائی۔ یہ معاشرے میں موجود ناشکری اور نیکی کا بدلہ برائی سے دینے کے رواج پر طنز ہے۔

شعر 2      ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی۔ آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے
تشریح
:    یہاں شاعر نے خوف کی شدت کو بہت دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔ “کھلا پانی” زندگی کی وسعت اور غیر یقینی کی علامت ہے۔ جب انسان کھلے سمندر میں ہوتا ہے تو اسے کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ اس قدر دہشت تھی کہ آنکھ جھپکنے کی بھی ہمت نہ ہوئی، اور اسی لمحے قابو کا ذریعہ (پتوار) ہاتھ سے گر گیا۔ یہ شعر علامتی طور پر اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جہاں انسان زندگی کے مسائل سے خوفزدہ ہو کر اپنا کنٹرول (کنارہ، ہمت، امید) کھو بیٹھتا ہے۔

شعر 3     مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں۔ جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
تشریح
:    یہ ایک غیرت مند انسان کی انا اور خود داری کی بہترین مثال ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر مجھے شکست یا زوال آنا ہے تو میں خود اپنی غلطیوں یا کمزوریوں کی وجہ سے گرنا چاہتا ہوں، نہ کہ کسی اور کے سائے یا سہارے کی وجہ سے۔ “سایۂ دیوار پہ دیوار گرنا” ایک ایسا منظر ہے جہاں سہارے کو ختم کرنے سے پورا وجود گر پڑتا ہے، اور شاعر یہی نہیں چاہتا۔ وہ خودمختاری اور عزت کے ساتھ گرنا بہتر سمجھتا ہے۔

شعر 4     تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط۔  یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے
تشریح
:    یہ شعر روشنی، امید، اور پھر ان کے زوال کا استعاراتی اظہار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ستاروں (یعنی امیدوں یا خوابوں) نے میرے دل میں وقتی روشنی تو دی، لیکن وہ روشنی مستقل نہ رہی۔ ستارے آخرکار ٹوٹ کر بے کار ہو گئے۔ یہ اس کیفیت کی علامت ہے جہاں انسان کو زندگی میں وقتی آسرا یا خوشی تو ملتی ہے، لیکن وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ اس شعر میں مایوسی کی ایک تہہ چھپی ہے جو زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

شعر 5     کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی۔ کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
تشریح
:    “تلوار لیے پھرنا” طاقت، غرور یا خوداعتمادی کی علامت ہے، جب کہ “ڈھال بنانا” حفاظت طلب کرنا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو درخت (چھتنار) پہلے خود کو طاقتور سمجھتا تھا، اب وہ خود میری پناہ میں آ گیا۔ یہ انسانی رویے کی تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ جو لوگ بظاہر مضبوط نظر آتے ہیں، اصل میں وہ اندر سے کمزور ہو سکتے ہیں اور وقتِ مصیبت کسی اور کے سہارے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

شعر 6      دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں۔  مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
تشریح
:    یہ شعر ہمدردی، قربت، اور مشترکہ انسانی درد کا ترجمان ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب پڑوس میں کوئی دیوار گرتی ہے (یعنی جب کسی کے ساتھ کوئی مصیبت آتی ہے)، تو میرا اپنا گھر بھی لرزنے لگتا ہے۔ یہ اس شعور کی علامت ہے کہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دوسروں کا نقصان ہمیں بھی متاثر کرتا ہے، اور یہ انسان کی اعلیٰ ظرفی اور احساس کا اظہار ہے۔

شعر 7     وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے۔ کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
تشریح
:    یہ زندگی کے غیر یقینی پہلو کی عکاسی ہے۔ “وقت کی ڈور” زندگی کا سلسلہ ہے، جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے، اور “لٹکی ہوئی تلوار” موت یا بڑی مصیبت کی علامت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ معلوم نہیں کب زندگی کا سلسلہ ختم ہو جائے اور کوئی ناگہانی آفت آ گرے۔ یہ ایک گہرے فکری احساس کا بیان ہے، جو ہمیں زندگی کی ناپائیداری کا احساس دلاتا ہے۔

شعر 8     ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان۔  ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے
تشریح
:    شاعر یہاں کہتا ہے کہ ہم تو بہت احتیاط سے چل رہے تھے، پھر بھی ایک ایسی چٹان سے ٹکرا گئے جو اندھیرے میں تھی، اور ہم گر پڑے۔ یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ بعض اوقات زندگی میں بہت سنبھلنے کے باوجود ہمیں ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نظر ہی نہیں آتیں، اور ان سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں بے بسی کا گہرا رنگ ہے۔

شعر 9      کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے۔ سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
تشریح
:    یہ شعر درد اور گہرے جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میری آنکھوں سے آنسو اس شدت سے بہے کہ جہاں یہ گرتے ہیں وہاں پتھر بھی کٹ جاتے ہیں۔ یہ جذبات کی شدت اور سچے درد کی تصویر کشی ہے۔ یہ آنکھیں شاعر کا چہرہ بھی ہیں اور اس کا عکس بھی۔

شعر 10     ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا۔ ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
تشریح
:    یہ شعر خواب، امید اور اس کی شکست کا خوبصورت اظہار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ چاہا، مگر اندھیرے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اور وہ لوگ جو خوابوں کی پوجا کرتے تھے، وہ بھی راستے میں کہیں گر گئے۔یہ شعر ناکامی اور شکست کا نوحہ ہے، جو انسان کی بے بسی اور ٹوٹے خوابوں کی گواہی دیتا ہے۔

شعر 11     وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر۔ آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے
تشریح
:    یہاں روشنی، سچائی یا حسن کی شدت کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ آئینے (یعنی سچ دیکھنے والے یا دکھانے والے) تک برداشت نہ کر سکے اور ٹوٹ گئے۔
“جلتے ہوئے پر” پروانے کی طرح ایک ایسے عشق یا سچائی کی علامت ہیں جو جان لیوا ہوتی ہے۔ یہ شعر سچائی کی قیمت اور انسانی کمزوری کا بیان ہے۔

شعر 12     دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف۔ نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
تشریح
:    یہ شعر غرور اور تکبر کے خلاف نصیحت ہے۔ شاعر خود کو (شکیب) مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اتنی بلندی کی طرف مت دیکھو، کیونکہ سر اٹھانے سے دستار (عزت) گر سکتی ہے۔ یہ شعر انسان کو عاجزی اور خود شناسی کا درس دیتا ہے، کہ خواہ کتنا بھی بلند مقام ہو، تکبر نہ کرو ورنہ عزت ختم ہو سکتی ہے۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from Ilmu علمو

Subscribe to get the latest posts sent to your email.


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Index

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading