شہزاد احمد کی غزل نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے کی تشریح
(اس آرٹیکل میں شہزاد احمد کی غزل نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور بارہویں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)
شعر 1: نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے
مفہوم: محبت میں الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی، دل کی گہرائیوں میں ایک خاص پہچان ہوتی ہے جو خاموشی سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ وہ محبوب کے سامنے آتے تو وہ انہیں پہچان لیتے تھے، چاہے وہ کچھ نہ بھی کہتے۔ یہ ایک نرم اور لطیف اشارہ ہے کہ محبوب کی آنکھوں میں ایک خاص پہچان تھی جو صرف شاعر کی موجودگی سے ظاہر ہوتی تھی۔ یہ شعر محبت کی خاموش زبان اور دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بیان کرتا ہے۔
شعر 2: آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند۔ ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے
مفہوم: محبت انسان کو اپنی مرضی سے ہٹ کر محبوب کی رضا کے مطابق چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔
تشریح: یہ شعر شاعر کی تبدیلی اور محبوب کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ ماضی میں وہ ہر بات پر اصرار کرتے تھے، لیکن اب وہ محبوب کی رضا کے سامنے خود کو پابند محسوس کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی محبت کی شدت اور اس کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔
شعر 3: خاک ہیں اب تری گلیوں کی وہ عزت والے۔ جو ترے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے
مفہوم: دنیا میں انسان کی عزت و وقار عارضی ہے، جو کل تک عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، آج وہ ذلت کا شکار ہیں۔
تشریح: شاعر اس شعر میں ماضی کی شان و شوکت اور آج کی ذلت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جو لوگ کبھی محبوب کے شہر کی خاک کو بھی عزت دیتے تھے، آج وہی لوگ اس شہر کی گلیوں کی خاک بن چکے ہیں۔ یہ شعر تقدیر کے بدلتے ہوئے رنگوں اور انسان کی فانی حیثیت کو بیان کرتا ہے۔
شعر 4: اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں۔ لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے
مفہوم: دنیا میں انسان کی عظمت عارضی ہے، اور ماضی میں لوگ جو چیزیں غیر معمولی سمجھتے تھے، آج وہ معمولی ہو گئی ہیں۔
تشریح: یہ شعر انسان کی عظمت کی زوال اور انسانوں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر بتاتے ہیں کہ ماضی میں لوگ پتھر کو بھی خدا مانتے تھے، لیکن آج انسان کی عظمت بھی ماند پڑ چکی ہے۔ یہ شعر انسان کی فانی اور کمزور حیثیت کو بیان کرتا ہے۔
شعر 5: دوستو اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو۔ تم وہی ہو کہ مرے زخم سیا کرتے تھے
مفہوم: دوستوں کی وفاداری اور تعلقات وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں، جو کل تک ساتھ تھے، آج وہی دشمن بن جاتے ہیں۔
تشریح: شاعر اس شعر میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں جب وہ دوست ان کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے۔ اب وہی دوست انہیں گردن زدنی کہتے ہیں۔ یہ شعر دوستی کی حقیقت اور انسان کی بدلتی ہوئی طبیعت کو ظاہر کرتا ہے۔
شعر 6: ہم جو دستک کبھی دیتے تھے صبا کی مانند۔ آپ دروازۂ دل کھول دیا کرتے تھے
مفہوم: محبت میں دل کی کھلی پذیرائی اور نرم رویہ اہمیت رکھتے ہیں، جو تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔
تشریح: یہ شعر محبت کی لطافت اور محبوب کی پذیرائی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر بتاتے ہیں کہ وہ کبھی نرم ہوا کی طرح دروازے پر دستک دیتے تھے، اور محبوب دل کا دروازہ کھول دیا کرتے تھے۔ یہ شعر محبت کی نرم اور دلکش کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔
شعر 7: اب تو شہزادؔ ستاروں پہ لگی ہیں نظریں۔ کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے
مفہوم: دنیا میں انسان کی حیثیت عارضی ہے، اور ماضی کی سادگی اور عاجزی آج کی دنیا میں کمیاب ہو گئی ہے۔
تشریح: یہ شعر شاعر کی عاجزی اور ماضی کی سادگی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر بتاتے ہیں کہ اب لوگ ستاروں کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن وہ خود مٹی میں زندگی گزارا کرتے تھے۔ یہ شعر انسان کی فانی حیثیت اور دنیا کی عارضیت کو ظاہر کرتا ہے۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from Ilmu علمو
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.