فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کی تشریح
فراق گورکھ پوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں محبت، جدائی، اور انسانی جذبات کے گہرے رنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ غزل نہ صرف عاشق کے دل کی کیفیت بیان کرتی ہے بلکہ عشق کی نزاکت، اس کی تلخیاں، اور اس کے منفرد اصولوں کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس غزل میں فراق گورکھپوری نے محبت کی روایتی کیفیت کو جدید انداز میں بیان کیا ہے۔ کہیں وہ عشق میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہیں، تو کہیں وہ محبت کی ازلی برابری اور مساوات کی بات کرتے ہیں۔ شاعر یہ بھی دکھاتا ہے کہ زندگی غم اور خوشی کا امتزاج ہے، مگر مکمل طور پر غمگین رہنا بھی زندگی نہیں ہے۔ فراق کے اشعار میں فلسفیانہ گہرائی بھی موجود ہے، جہاں وہ انسانی مقام، عشق کی حقیقت، اور زندگی کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے اشعار سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج ہیں، جو قاری کو سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
شعر 1۔ کم ابھی اگرچہ رسم و راہ نہیں اب وہ پہلی سی تری نگاه نہیں
مفہوم۔ اگرچہ ہماری رسم و راہ اور ملاقات کے سلسلے کم نہیں ہوئے، لیکن اب ہم پر تیری پہلی جیسی نگاہِ کرم نہیں ہے۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ تشریح طلب شعر انسانی تعلقات، محبت، اور جذباتی تغیرات کی ایک گہری عکاسی کرتا ہے۔ شاعر اس شعر میں محبوب کے بدلتے ہوئے رویے اور نگاہوں کی بےرخی کا شکوہ کر رہا ہے۔ شعر کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگرچہ ملاقاتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، اور بظاہر تعلق قائم ہے، مگر اس میں وہ پہلی سی گرمی، خلوص، اور محبت کی شدت باقی نہیں رہی۔
فراق کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ پہلا مصرع ہمیں بتاتا ہے کہ شاعر اور محبوب کے درمیان اب بھی ایک تعلق موجود ہے، وہ بالکل ختم نہیں ہوا۔ “رسم و راہ“ کا مطلب یہاں تعلقات اور ملاقاتوں کے سلسلے سے ہے، جو اب بھی کسی نہ کسی حد تک قائم ہیں۔ مگر “کم” کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان تعلقات میں پہلے جیسی روانی اور شوق نہیں رہا، یا شاید یہ تعلق رسمی اور روایتی حد تک محدود ہو گیا ہے۔ شاعر اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ ظاہری طور پر سب کچھ ٹھیک ہے، مگر اس میں وہ پرانی خوشبو اور اپنائیت باقی نہیں رہی۔
غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے پہلے شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرعے کے مفہوم کو مزید واضح کر دیتا ہے۔ شاعر محبوب کے رویے میں آنے والی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ محبت بھری نگاہ، جو کبھی شاعر پر اٹھتی تھی، اب بدل چکی ہے۔ “پہلی سی” سے مراد وہ گہری، والہانہ اور محبت بھری نظر ہے جو کبھی شاعر پر پڑا کرتی تھی، مگر اب اس میں سرد مہری آ گئی ہے۔ محبوب کی نظر میں وہ اپنائیت اور کشش نہیں رہی جو کبھی شاعر کے دل کو مسرور کر دیا کرتی تھی۔ یہاں شاعر کی حسرت اور اداسی نمایاں ہے۔ وہ اس تغیر کو محسوس کر رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ تعلقات میں آ گیا ہے۔ محبوب کی نگاہ میں جو چمک، جو شوق، جو محبت پہلے ہوا کرتی تھی، وہ اب ماند پڑ چکی ہے۔ شاعر کو اس تبدیلی کا گہرا صدمہ ہے، کیونکہ محبت میں سب سے زیادہ اہمیت احساسات اور جذبات کی شدت کی ہوتی ہے، اور اگر وہ کم ہو جائیں تو تعلق کا بظاہر برقرار رہنا بھی بےمعنی ہو جاتا ہے۔
یہ شعر ایک عام انسانی تجربے کو نہایت سادگی اور گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دو لوگوں کے درمیان تعلق وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ ابتدا میں جو شوق اور محبت کی شدت ہوتی ہے، وہ وقت کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک ماند پڑ جاتی ہے۔ بسا اوقات، ملاقاتیں اور تعلقات برقرار رہتے ہیں، مگر ان کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہ شعر ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ محبت میں سب سے زیادہ اہمیت الفاظ یا ملاقاتوں کی نہیں، بلکہ جذبات کی ہوتی ہے۔ جب محبت کرنے والے کی نگاہ ہی بدل جائے، اس کی نظر میں وہی پرانی چمک باقی نہ رہے، تو پھر محبت کے دیگر عوامل بھی بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے شعری حسن کی بات کی جائے تو غزل کا مطلع ہمیں تعلقات میں تبدیلی کی ایک عمومی مگر گہری حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ شاعر محبت کی اس کیفیت کو نہایت خوبصورتی اور درد مندی کے ساتھ بیان کرتا ہے، جہاں ظاہری طور پر سب کچھ برقرار ہوتا ہے، مگر اصل روح ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ شعر محبت کی نزاکت اور انسانی تعلقات کے بدلتے ہوئے رنگوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور قاری کے دل میں ایک مخصوص اداسی اور احساس چھوڑ جاتا ہے۔
شعر 2۔ غم بھی ہے جزو زندگی لیکن زندگی اشک اور آہ نہیں
مفہوم۔ اگرچہ زندگی میں غم اور دکھ کا آنا عام سی بات ہے، لیکن اگر پوری زندگی ہی دکھوں سے بھر جائے تو وہ زندگی نہیں ہے۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ شعر زندگی کے نشیب و فراز، غم و خوشی، اور متوازن طرزِ حیات کے بارے میں ایک نہایت اہم حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ شاعر اس شعر میں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگرچہ غم اور پریشانیاں زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں، لیکن ان کا یہ مطلب نہیں کہ پوری زندگی ہی صرف دکھوں اور تکالیف پر مشتمل ہو۔ زندگی صرف آہوں اور آنسوؤں کا نام نہیں، بلکہ اس میں خوشی، امید، اور روشنی کے بھی بہت سے پہلو ہیں۔
یہاں شاعر ایک حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے کہ زندگی میں غم بھی شامل ہیں۔ “جزو” کا مطلب کسی چیز کا حصہ ہے، یعنی زندگی کے مختلف حصوں میں سے ایک حصہ غم بھی ہے۔ انسان کی زندگی میں خوشی اور راحت کے لمحات کے ساتھ ساتھ دکھ، تکلیف، محرومی اور مشکلات بھی آتی ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے، کیونکہ اگر انسان کو کبھی غم نہ ہو تو وہ خوشی کی قدر بھی نہیں کر سکتا۔ غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے اس شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی وضاحت کرتا ہے اور شاعر کے بنیادی پیغام کو اجاگر کرتا ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگرچہ غم زندگی میں آتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری زندگی کو رونے اور آہیں بھرنے میں گزار دیا جائے۔ زندگی کا اصل مقصد صرف رنج و غم میں مبتلا رہنا نہیں، بلکہ اس میں خوشی، امید، جستجو، اور ترقی کے بھی مواقع موجود ہوتے ہیں۔
یہ شعر زندگی کی حقیقت کو نہایت متوازن اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ شاعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں خوشی اور غم دونوں آتے ہیں، مگر انسان کو صرف اپنے دکھوں میں گم ہو کر زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص صرف اپنے غموں پر توجہ دے گا اور خوشیوں کو دیکھنے سے انکار کرے گا، تو وہ زندگی کی اصل خوبصورتی کو محسوس نہیں کر پائے گا۔ یہ شعر ہمیں حوصلہ دیتا ہے کہ ہم مشکلات کے باوجود آگے بڑھیں، کیونکہ زندگی کا مقصد صرف تکالیف کو سہنا نہیں، بلکہ امید کے ساتھ جینا اور خوشی کے لمحات کو بھی اپنانا ہے۔
بنیادی طور پر غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ شعر ہمیں ایک مثبت اور متوازن زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگرچہ غم زندگی میں آتے ہیں، لیکن ہمیں صرف انہی پر فوکس نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی خوشیوں، کامیابیوں، اور روشن پہلوؤں کو بھی دیکھنا چاہیے، کیونکہ زندگی کا اصل مقصد آگے بڑھنا، سیکھنا، اور بہتر طریقے سے جینا ہے۔
شعر 3۔ موت بھی زندگی میں ڈوب گئی یہ وہ دریا ہے جس کی تھاہ نہیں
مفہوم۔ موت بھی زندگی کا ہی ایک اہم حصہ ہے، موت زندگی کے ساتھ منسلک ہے، اور یہ ایک ایسا دریا ہے جس کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ پاتا۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے اس تشریح طلب شعر میں زندگی کی گہرائی، اس کے اسرار، اور اس کی لامحدودیت نہایت فلسفیانہ انداز میں بیان کی جا رہی ہے۔ شاعر نے یہاں زندگی کو ایک ایسے دریا سے تشبیہ دی ہے جس کی کوئی تہہ (گہرائی) نہیں، یعنی جس کا کوئی سرا یا اختتام واضح نہیں۔ اس شعر میں زندگی اور موت کے باہمی تعلق اور انسانی فہم کی محدودیت کا اظہار کیا گیا ہے۔
فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے اس شعر کا پہلا مصرع یہ ایک نہایت گہرے معنی کو بتاتا ہے۔ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی موت میں ختم ہو جاتی ہے، مگر یہاں شاعر نے ایک مختلف نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی اتنی وسیع اور گہری ہے کہ موت بھی اس میں گم ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ زندگی کا تسلسل جاری رہتا ہے، اور موت بھی دراصل زندگی ہی کا ایک حصہ ہے، نہ کہ اس کا خاتمہ۔
یہ مصرع اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ انسانی شعور اور اس کے تجربات اتنے پیچیدہ اور وسیع ہیں کہ موت محض ایک اور سطح پر جانے کا عمل ہو سکتا ہے۔ یہاں شاعر شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ زندگی اپنی وسعت میں اتنی بڑی ہے کہ موت کا تصور بھی اس میں سما جاتا ہے، یعنی زندگی کا سفر موت پر ختم نہیں ہوتا بلکہ کسی اور جہت میں جاری رہتا ہے۔
اس غزل کا دوسرا مصرع زندگی کی بےکراں وسعت اور اس کی پیچیدگی کو ایک خوبصورت تشبیہ کے ذریعے واضح کرتا ہے۔ شاعر زندگی کو ایک دریا سے تشبیہ دے رہا ہے، مگر وہ ایسا دریا ہے جس کی کوئی “تھاہ” (گہرائی کی حد) نہیں ہے۔ یعنی زندگی کی گہرائی کو مکمل طور پر سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں۔
فراق گورکھپوری کی غزل کا یہ شعر زندگی اور موت کے بارے میں ایک گہری فکر کو نمایاں کرتا ہے۔ عام طور پر ہم موت کو زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں، لیکن یہاں شاعر نے موت کو بھی زندگی میں ضم کر دیا ہے۔ یہ ایک صوفیانہ اور فلسفیانہ نقطۂ نظر ہے، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی ایک مسلسل بہاؤ ہے اور اس کی حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ شعر اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ انسانی عقل زندگی اور موت کے تمام پہلوؤں کا ادراک نہیں کر سکتی۔ ہم اکثر زندگی کو محدود وقت کے پیمانے میں دیکھتے ہیں، مگر یہ شعر ہمیں بتاتا ہے کہ شاید زندگی کی حقیقت ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
یہ شعر ہمیں زندگی کی وسعت، اس کی پیچیدگی، اور اس کے اسرار پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ شاید موت محض ایک دروازہ ہے، ایک اور جہت میں داخل ہونے کا ذریعہ، اور زندگی اپنی حقیقت میں اتنی گہری ہے کہ اسے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا شعر ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے اور زندگی و موت کے بارے میں ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔
شعر4۔ ہے یہ دنیا عمل کی جولاں گاہ مے کدہ اور خانقاہ نہیں
مفہوم۔ یہ دنیا عمل کا میدان ہے، یہاں عمل سے ہی ککچھ ملتا ہے، یہ مے کدہ اور خانقاہ نہیں جہاں سب کچھ خود بخود میسر آ جائے۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ تشریح طلب شعر ایک نہایت اہم اور عملی زندگی کا پیغام دینے والا ہے۔ شاعر نے اس میں دنیا کی حقیقت کو واضح کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ دنیا صرف خواب دیکھنے یا قسمت کے بھروسے بیٹھنے کی جگہ نہیں، بلکہ یہاں کامیابی محض عمل اور جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔
فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کے اس شعر کا پہلا مصرع دنیا کی اصل حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ شاعر دنیا کو “جولاں گاہ“ یعنی ایک ایسا میدان قرار دے رہا ہے جہاں حرکت اور جدوجہد ضروری ہے۔ جولاں گاہ کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں سرگرمی، محنت، اور مقابلہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، اسے محنت اور مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ مصرع اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے عمل، کوشش اور جدوجہد ضروری ہے۔ یہاں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو سخت محنت کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے ہیں۔
اس غزل کا دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی وضاحت کرتا ہے اور شاعر کے بنیادی پیغام کو مزید واضح کرتا ہے۔ یہاں شاعر نے دنیا کو “مے کدہ“ اور “خانقاہ“ کے متضاد تصورات سے جوڑا ہے۔ مے کدہ شراب خانہ ہوتا ہے، جہاں لوگ اپنی دنیاوی پریشانیوں کو بھلانے کے لیے وقت گزارتے ہیں، سستی اور غفلت میں پڑ جاتے ہیں، اور عمل سے دور ہو جاتے ہیں۔ خانقاہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں صوفیاء اور درویش اللہ کی یاد میں مشغول ہوتے ہیں، دنیاوی محنت اور مشقت سے الگ ہو کر ایک گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہیں۔ شاعر کا یہ کہنا ہے کہ دنیا نہ تو ایک مے کدہ ہے جہاں سب کچھ محض لطف و راحت کے ساتھ گزر جائے، اور نہ ہی یہ خانقاہ ہے جہاں بنا کسی عمل کے سب کچھ خود بخود حاصل ہو جائے۔ دنیا ایک ایسا میدان ہے جہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو محنت، عقل، اور تدبیر سے کام لیتے ہیں۔
فراق گورکھپوری اس شعر ہمیں ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ دنیا میں کامیابی صرف محنت اور جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہمیں کاہلی اور قسمت کے بھروسے بیٹھنے کے بجائے عملی زندگی میں سرگرم ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ شاعر ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کسی آرام گاہ کی طرح نہیں، بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا میدان ہے، جہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور سخت محنت کرتے ہیں۔
شعر 5۔ کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں عشق توفیق ہے گناہ نہیں
مفہوم۔ اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو میں اسے یہ بات سمجھاؤں کہ عشق توفیق ہے، گناہ یا بوجھ نہیں ہے۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ تشریح طلب شعر عشق کے حقیقی مفہوم اور اس کی روحانی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شاعر یہاں ایک عام غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ عشق کوئی گناہ یا قابلِ مذمت چیز نہیں، بلکہ ایک نعمت اور توفیق ہے جو صرف خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے۔
اس غزل کا پہلا مصرع شاعر کے اندرونی احساسات اور اس کے تجربے کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر کوئی سمجھنے والا ہو، یعنی کوئی ایسا شخص ہو جو عشق کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، تو میں اسے ایک اہم بات بتاؤں۔ یہاں شاعر یہ شکوہ بھی کر رہا ہے کہ زیادہ تر لوگ عشق کے حقیقی معنی سے ناواقف ہیں اور اسے غلط انداز میں دیکھتے ہیں۔ وہ اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ ہر کوئی عشق کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکتا، اس لیے وہ اپنی بات صرف کسی سمجھدار اور حساس دل رکھنے والے شخص سے کرنا چاہتا ہے۔
اس غزل کا دوسرا مصرع عشق کے مثبت اور اعلیٰ مقام کو واضح کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عشق کوئی گناہ نہیں، جیسا کہ عام طور پر معاشرہ سمجھتا ہے، بلکہ یہ ایک توفیق یعنی عطیۂ خداوندی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عشق کسی خاص فضل و کرم کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے اور ہر کسی کو نہیں ملتا۔ یہ مصرع روحانی اور صوفیانہ نقطۂ نظر کو بھی بیان کرتا ہے، کیونکہ صوفیائے کرام بھی عشق کو ایک روحانی مقام سمجھتے ہیں جو انسان کو حقیقت کی گہرائیوں تک لے جاتا ہے۔ یہاں عشق محض دنیاوی محبت تک محدود نہیں، بلکہ اس میں وہ الوہی محبت بھی شامل ہے جو انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے۔
غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ شعر ہمیں عشق کے ایک بلند تصور سے روشناس کراتا ہے۔ شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ عشق کو محض دنیاوی یا سطحی جذبات تک محدود نہ کیا جائے، بلکہ اسے ایک اعلیٰ جذبہ اور نعمت سمجھا جائے۔ یہ شعر ان لوگوں کے لیے بھی ایک جواب ہے جو عشق کو بدنام کرتے ہیں اور اسے گناہ سمجھتے ہیں۔ شاعر کے مطابق، عشق کسی برائی یا جرم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا نایاب احساس ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور انسان کو عظمت کی طرف لے جاتا ہے۔
فراق گورکھپوری کی غزل کا یہ شعر عشق کے بارے میں معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ عشق ایک نعمت اور بلندی کی علامت ہے، نہ کہ کوئی گناہ یا غلطی۔ فراق گورکھپوری یہاں عشق کو ایک روحانی درجہ دے کر اس کے تقدس کو اجاگر کرتے ہیں اور ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ حقیقی عشق صرف خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
شعر 6۔ رات میں رنگ ہے وہی لیکن وہ خمِ گیسوئے سیاہ نہیں
مفہوم۔ رات بھی محبوب کی زلفوں کی طرح کالی اور لمبی ہے ، لیکن اس رنگ کے باوجود رات میرے محبوب کی زلف کی جگہ نہیں لے سکتی۔
تشریح۔ فراق گورکھپوری کی غزل کم ابھی گرچہ رسم و راہ نہیں کا یہ شعر محبت، حسن، اور اس کی انفرادیت کے گہرے احساسات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر نے یہاں محبوب کی زلفوں اور رات کی سیاہی کے مابین ایک دلچسپ تقابل پیش کیا ہے۔ یہ ایک روایتی انداز ہے جس میں شاعری میں محبوب کی زلفوں کو رات کی طرح سیاہ اور حسین قرار دیا جاتا ہے، لیکن فراق گورکھپوری نے اس عام تشبیہ کو ایک منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔
یہاں شاعر اس حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے کہ رات اور محبوب کی زلفوں کا رنگ ایک جیسا ہے، یعنی دونوں سیاہ ہیں۔ رات کی تاریکی، اس کی گہرائی، اور اس کا سکون محبوب کی زلفوں کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اس مصرعے میں جو “لیکن“ کا لفظ آیا ہے، وہ دوسرے مصرعے کے لیے تجسس پیدا کر رہا ہے، جس میں شاعر ایک تضاد کو نمایاں کرے گا۔ یہ مصرع محبوب کی زلفوں اور رات کے مابین ایک سطحی مماثلت کو ظاہر کرتا ہے، مگر ساتھ ہی شاعر یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اصل فرق کیا ہے، جو دوسرے مصرعے میں بیان کیا جائے گا۔ دوسرے مصرعے کی بات کی جائے تو یہاں شاعر وضاحت کرتا ہے کہ اگرچہ رات کی سیاہی اور محبوب کی زلفوں کی سیاہی ایک جیسی ہے، لیکن رات میں وہ دلکشی، وہ نزاکت، اور وہ دل فریب انداز نہیں جو محبوب کی زلفوں میں ہے۔ خمِ گیسو کا مطلب زلفوں کے گھنگھریالے پن یا ان کی لہراتی کیفیت ہے، جو محبت میں گرفتار عاشق کے لیے بہت پرکشش ہوتی ہے۔ یہ مصرع اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ محبوب کی زلفیں صرف رنگت کی وجہ سے حسین نہیں ہیں، بلکہ ان کا انداز، ان کی لچک، اور ان میں جو مخصوص کشش ہے، وہ انہیں رات سے مختلف اور منفرد بناتی ہے۔
فراق گورکھ پوری کی غزل کا یہ شعر محبوب کی انفرادیت اور اس کے حسن کی بےمثال خوبصورتی کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگرچہ رات اور محبوب کی زلفوں میں ظاہری مشابہت ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں کہ رات محبوب کی زلفوں کی جگہ لے سکتی ہے۔ محبوب کی زلفوں میں جو دلکشی، رومانویت، اور جذب و کشش ہے، وہ کسی اور چیز میں نہیں مل سکتی۔ یہ شعر ایک عاشق کی گہری محبت اور اس کے دل میں محبوب کی خصوصی جگہ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی بھی چیز، چاہے وہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کے محبوب کا نعم البدل بن سکتی ہے۔
شعر 7۔ مرتبہ دیکھ خاکِ آدم کا یہ مقاماتِ مہر و ماہ نہیں
مفہوم۔ آدم کا مرتبہ تو دیکھو، اگرچہ خاک کا بنا ہوا ہے لیکن چاند اور سورج جیسے بڑے اجرام بھی خدا کی نظر میں اس کے برابر نہیں ہیں۔
تشریح۔ فراق گورکھ پوری غزل کے اس شعر میں انسان کی عظمت، اس کے بلند مقام، اور اس کی تخلیق کے راز کو بیان کرتے ہیں۔ فراق گورکھپوری یہاں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ اگرچہ انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے، مگر اس کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ چاند اور سورج جیسے عظیم اجرام بھی اس کی برابری نہیں کر سکتے۔ یہ شعر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل دیتا ہے اور اس کی ذہنی، روحانی اور فکری برتری کو واضح کرتا ہے۔
پہلے مصرع میں شاعر قاری کو متوجہ کر کے انسان کی اصل اور اس کی بلندی کو ایک ساتھ بیان کرتا ہے۔ آدمی کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے، جو بظاہر ایک حقیر اور معمولی شے ہے، لیکن اس خاک میں ایسا جوہر رکھا گیا ہے کہ وہ پوری کائنات پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہ مصرع قرآن مجید کی تعلیمات سے بھی متاثر معلوم ہوتا ہے، جہاں اللہ نے انسان کو “احسنِ تقویم“ (بہترین صورت میں پیدا کیا گیا) کہا ہے اور فرشتوں کو بھی آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ گویا شاعر ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ انسان صرف خاک کا پتلا نہیں بلکہ اس میں شعور، عقل، اور محبت کی وہ روشنی موجود ہے جو اسے کائنات میں سب سے برتر بنا دیتی ہے۔
غزل کا دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی وضاحت کرتا ہے اور شاعر کے بنیادی پیغام کو مزید واضح کرتا ہے۔ یہاں “مہر“ (سورج) اور “ماہ“ (چاند) کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ عام طور پر، سورج اور چاند کو عظمت، روشنی اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن شاعر کہتا ہے کہ انسان کا درجہ ان سے بھی بلند ہے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چاند اور سورج محض بے جان اجسام ہیں جو ایک مقررہ راستے پر گردش کر رہے ہیں، جبکہ انسان کو سوچنے، سمجھنے، اور اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔ اس میں تخلیقی قوت ہے، وہ محبت کر سکتا ہے، علم حاصل کر سکتا ہے،
اور خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ یہی چیزیں اسے مادی دنیا کی سب سے عظیم مخلوق بناتی ہیں۔
یہ شعر انسانی عظمت اور اس کے بلند مقام کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اگرچہ انسان خاک (مٹی) سے بنا ہے، لیکن اس میں ایسا جوہر موجود ہے کہ وہ چاند اور سورج جیسے عظیم اجرام سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ شعر ہمیں خود شناسی کا سبق دیتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ انسان کو اپنی قدر کرنی چاہیے اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر زندگی میں بڑے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنا چاہیے۔
شعر 8۔ یہ مساواتِ عشق دیکھ فراق امتیازِ گدا و شاہ نہیں
مفہوم۔ عشق کے میدان میں مساوات اور برابری ہے۔ عشق بادشاہ اور فقیر کا فرق نہیں جانتا۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں فراق گورکھپوری عشق کے میدان میں مساوات اور برابری کو بیان کر رہے ہیں۔ فراق کا یہ شعر عشق کی عالمگیر اور مساویانہ فطرت کو بیان کرتا ہے۔ فراق گورکھپوری اس شعر میں اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ عشق میں کوئی طبقاتی فرق، سماجی رتبہ، یا دنیاوی حیثیت معنی نہیں رکھتی۔ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو بادشاہ اور فقیر دونوں کو ایک ہی سطح پر لے آتا ہے، کیونکہ عشق میں برتری صرف سچے اور خالص جذبات کی ہوتی ہے، نہ کہ کسی کے دنیاوی مقام کی۔ یہ شعر عشق کے ایک عظیم اصول کی نشاندہی کرتا ہے کہ عشق میں سب برابر ہوتے ہیں۔ عشق نہ تو کسی کے مال و دولت کو دیکھتا ہے اور نہ کسی کی سلطنت کو۔ عشق کا تعلق انسان کے باطن اور اس کے جذبات سے ہوتا ہے، اس لیے اس میں بادشاہ اور فقیر کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔
یہ شعر ہمیں ایک گہرا سبق بھی دیتا ہے کہ سچی محبت کسی بھی قسم کے دنیاوی فائدے یا حیثیت کی محتاج نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک خالص جذبہ ہے جو ہر طرح کے فرق کو مٹا کر سب کو ایک سطح پر لے آتا ہے۔ یہ شعر عشق کی پاکیزگی اور برابری کے اصول کو نمایاں کرتا ہے۔ شاعر اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ عشق کسی بھی سماجی فرق کو قبول نہیں کرتا اور سب عاشقوں کو ایک ہی سطح پر لے آتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو کسی کو بادشاہ بنا سکتا ہے اور کسی بادشاہ کو فقیر کر سکتا ہے، لیکن اس میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ یہ شعر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم سچے عشق کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دنیاوی مرتبوں سے بالاتر ہو کر صرف محبت کی حقیقت پر غور کرنا ہوگا، کیونکہ عشق کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ سب کو برابر کر دیتا ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.