نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
اس آرٹیکل ” نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح” میں مولانا ظفر علی خان کی تحریر کردہ نظم نعت “دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو” کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔
شعر 1: دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو
تشریح: نظم نعت رسول مقبول ﷺ کے اس شعر میں شاعر مولانا ظفر علی خان حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس کو زندگی اور دنیا کا مرکز قرار دے رہے ہیں۔ یہاں “دل جس سے زندہ ہے” سے شاعر کی مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ کی محبت اور یاد ہی ہے جس سے دل زندہ رہتا ہے۔ زندہ دل اور زندہ دلی سے مراد ، زندگی کی خواہش اور امید کا ہونا ہے۔ یعنی آپ ﷺ ہی وہ ذات ہیں کہ جن کی وجہ سے دل میں زندہ رہنے کے خواہش موجود ہے۔ ورنہ یہ دنیا انتہائی تلخ مقام ہے جہاں انسان کا بالکل بھی زندہ رہنے کا دل نہ کرے۔
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں آپ ﷺ کی تمنا کو دل کی دھڑکن کہا جا رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کہا گیا ہے کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، وہ دنیا بھی حضور ﷺ ہی کی ذاتِ گرامی سے ہی آباد ہے۔ رسول ﷺ شہِ لولاک ہیں، یعنی اگر آپ ﷺ نہ ہوتے تو یہ دنیا بالکل بھی وجود میں نہ آتی۔ یہ دنیا ہی نہیں بل کہ یہ تمام کائنات آپﷺ ہی کی ذات کا صدقہ ہے، اور آپ ﷺ ہی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔آپﷺ ہی ہماری دنیا کی رونق اور ہمارے وجود کا باعث ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر2: پھوٹا جو سینۂ شب تار الست سے اس نور اولیں کا اجالا تمہیں تو ہو
تشریح: نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو، کا یہ شعر تخلیقِ کائنات کے راز کو بیان کرتا ہے۔ “سینۂ شب تار الست” سے مراد وہ ابتدائی وقت ہے جب کائنات کی تخلیق ہوئی۔ اُس وقت سے پہلے ہر طرف اندھیرا تھا۔ کالی اندھیری رات کی طرح۔ “نور اولیں” سے مراد وہ پہلی روشنی ہے جو کائنات میں پھیلی۔ شاعر کے مطابق یہ روشنی، جو کائنات کی ابتدا میں ظاہر ہوئی، وہ در اصل رسول اللہ ﷺ ہی کا نور ہے۔ یعنی اپﷺ ہی وہ اولین نور ہیں جو کائنات کو منور کرتے ہیں۔ اللہ نے اس تمام جہانِ آب و گل میں جو چیز سب سے پہلے خلق کی وہ رسولﷺ کی ذات اقدس تھی۔ اللہ نے اپنے نور سے رسولﷺ کا نور خلق کیا اور اس کے بعد اُس نور سے پوری کائنات کو خلق کیا۔
اس شعر میں شاعر مولانا ظفر علی خان اُسی وقت کو بیان کرتے ہوئے رسولﷺ کی عظمت کو بیان کر رہے ہیں، کہ جب اللہ نے رسولﷺ کو خلق کرنے کے بعد ہی یہ تمام کائنات بنائی۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر 3: سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا سب غایتوں کی غایت اولی تمہیں تو ہو
تشریح: نعت کے اس شعر میں کہا گیا ہے کہ پوری کائنات رسول اللہ ﷺ کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر چیز کی تخلیق کا مقصد آپ ﷺہی کی ذاتِ اقدس سے ہی جُڑا ہوا ہے۔ اس شعر میں حدیث لولاک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس جہان میں جو کچھ بھی پیدا کیا گیا ہے وہ رسولﷺ کی ذات اقدس کی ہی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر آپﷺ کی ذات نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ پیدا ہوتا۔
“سب غایتوں کی غایت اولی” سے مراد یہ ہے کہ ررسول اللہ ﷺ ہی ہر چیز کے مقصد کے پیچھے موجود اصل مقصد ہیں۔ یعنی غایتوں کی غایت، یا علتوں کی علت، یا وجوہات کی اصل وجہ۔ ہر چیز کی انتہا اور کمال آپ ﷺ میں پنہاں ہے۔ شاعر حضور ﷺ کو کائنات کی تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر4: اس محفل شہود کی رونق تمہیں سے ہے اس محمل نمود کی لیلیٰ تمہیں تو ہو
تشریح: “محفل شہود” سے مراد وہ محفل ہے جہاں ہر چیز ظاہر اور موجود ہےیا وہ محفل جو موجود ہے اور اس کی گواہی یا شہادت دی جا سکتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس محفل یا اس دنیا و کائنات کی رونق اور خوبصورتی حضور ﷺہی کی وجہ سے ہی ہے۔ رسول ﷺ اس محفل کی رونق ہیں۔ آپﷺ کی وجہ سے ہی یہ دنیا وجود میں آئی۔ اور اس دنیا میں موجود رونقیں بھی آپﷺ ہی کے دم سے ہیں۔ “محمل نمود” سے مراد وہ ظاہری دنیا ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا کی لیلیٰ (خوبصورتی اور رونق) بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس تمام کائنات اور اس کائنات میں موجود ہر ایک چیز کی خوبصورتی ، حُسن اور رونق کا سبب ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر5: جلتے ہیں جبرئیل کے پر جس مقام پر اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہیں تو ہو
تشریح: اس شعر میں رسولﷺ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس شعر میں شب معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شب معراج جب رسولﷺ آسمانوں کے سفر پر تھے تو آسمانوں کو پار کرنے کے بعد “سدرۃ المنتہیٰ” کا وہ مقام آیا جو جبرئیلؑ کی آخری حد تھی۔ “جبرئیل کے پر” سے مراد وہ مقام ہے جہاں فرشتے بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔ جبرئیل ؑ اس وجہ سے آگے نہیں گئے کیوں کہ نور اور روشنی کی شدت سے اُن کے پر جلتے تھے۔ اور اس مقام سے آگے رسولﷺ خود گئے اور اللہ سے ملاقات کی، جہاں اُن کے اور اللہ کے درمیاں صرف ایک نور کا پردہ حائل تھا۔
شاعر کہتا ہے کہ جس مقام پر جبرئیل کے پر جل جاتے ہیں، وہاں سے آگے کی حقیقتوں اور سچائیوں کو حضور ﷺ ہی کو پہچانتے ہیں۔
خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفیٰ ﷺ جانے مقامِ مصطفیٰ کیا ہے، محمد ﷺ کا خدا جانے
کہا جبرئیل نے سدرہ تلک میری رسائی تھی ہیں کتنی منزلیں آگے، نبیﷺ جانے خدا جانے
یعنی آپ ﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ان رازوں کو جانتے ہیں جن تک عام لوگ تو کیا جبرئیلؑ جیسے فرشتے بھی جن سے انجان ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر6: جو ماسوا کی حد سے بھی آگے گزر گیا اے رہ نورد جادہ اسریٰ تمہیں تو ہو
تشریح: نظم نعت کے اس شعر کی تشریح کی جائی تو شاعر کے مطابق یہاں “ماسوا کی حد” سے مراد وہ حد ہے جو مخلوقات کے لیے مقرر ہے۔ یعنی تمام مخلوقات سے بہتر مخلوق اشرف المخلوقات انسان ، اور طاقت رکھنے والی دیگر مخلوقات جیسے فرشتےبھی، اس حد کو پار نہیں کر سکتے۔ یہاں ہم شب معراج کے واقعے کو بھی موضوع بنا سکتے ہیں، کہ رسولﷺ انسانوں کی دنیا کے اصولوں سے بالکل آزاد ہو گئے اور تمام پابندیاں ختم کر کے آسمانوں کی سیر کو چلے گئے۔ اور اسی طرح آپ ﷺ فرشتوں کی حد “سدرۃ المنتہیٰ” کو بھی پار کر کے آگے چلے گئے۔ شاعر کہتا ہے کہ حضور ﷺ وہ واحد ہستی ہیں جو ان حدود سے بھی آگے نکل گئے۔ “رہ نورد جادہ اسریٰ” سے مراد وہ راہی ہے جو معراج کی راہ پر چلتا ہے۔ شاعر حضور ﷺ کو معراج کی راہ کا مسافر قرار دیتا ہے، جو ہر حد انسانوں کے لیے بھی اور فرشتوں کے لیے بھی ہر لحاظ سے بالاتر ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر7: پیتے ہی جس کے زندگیٔ جاوداں ملی اس جاں فزا زلال کے مینا تمہیں تو ہو
تشریح: اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی بخش قرار دیا گیا ہے۔ “زندگیٔ جاوداں” سے مراد ہمیشہ کی زندگی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جن کے پینے سے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔ “جاں فزا زلال” سے مراد وہ پانی ہے جو زندگی بخشتا ہے۔ شاعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زندگی بخش پانی کا مینا (برتن) قرار دیتا ہے۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر8: اٹھ اٹھ کے لے رہا ہے جو پہلو میں چٹکیاں وہ درد دل میں کر گئے پیدا تمہیں تو ہو
تشریح: اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دل کے درد کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ “پہلو میں چٹکیاں” سے مراد دل کی تکلیف اور بے چینی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ درد اور بے چینی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے دل میں درد پیدا کیا ہے۔
شعر9: دنیا میں رحمت دو جہاں اور کون ہے جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمہیں تو ہو
تشریح: نظم نعت کے اس شعر میں شاعر مولانا ظفر علی خان، حضور ﷺ کو رحمتِ دو جہاں قرار دے رہے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے کہا
“ہم نے آپﷺ کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا”
“رحمت دو جہاں” سے مراد وہ رحمت ہے جو دونوں جہانوں (دنیا اور آخرت) کے لیے ہے۔ رسولﷺ کو اللہ تعالیٰ نے محض انسانوں کے لیے اور انسانوں کی دنیا کی اشیا کے لیے ہی رحمت بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ آسمانوں کی مخلوقات یعنی فرشتوں کے لیے بھی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپﷺ سراپا رحمت ہیں۔
شاعر اس نظم “دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو” میں کہتے ہیں کہ حضور ﷺ ہی وہ ہستی ہیں جن کی کوئی نظیر نہیں یعنی اُن جیسا اور بھی نہیں، نہ اس پوری کائنات میں اُن جیسی کوئی اور مثال موجود ہے۔ آپ ﷺ اللہ کے وہ محبوب ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ آپﷺ تنہا اور بے مثال ہیں۔جتنا شرف اللہ نے آپﷺ کو عطا کیا ہےاور جو مقام اور مرتبہ اللہ نے آپﷺ کو دیا ہے، اتنا اس پوری کائنات میں اور کسی بھی ذات کو نہیں دیا گیا۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر10: گرتے ہوؤں کو تھام لیا جس کے ہاتھ نے اے تاجدار یثرب و بطحا تمہیں تو ہو
تشریح: نظم نعت کے اس شعر میں حضور ﷺ کو نجات دہندہ قرار دیا گیا ہے۔ “گرتے ہوؤں کو تھام لیا” سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو گرتے ہوئے لوگوں کو سنبھالتے ہیں۔ آپﷺ کے آنے سے پہلے یہ دنیا کفر اور شر کا گہوارہ بنی ہوئی تھی۔ انسانیت ، انسانیت کے درجے سے گر چکی تھی۔ اور لوگ حیوانوں سے بھی بد تر ہو گئے تھے۔ آپ ﷺ کے آنے سے اس دنیا میں دوبارہ امن و سکون آ گیا۔ اور آپ ﷺ نے انسان کی گرتی ہوئی معاشرت اور تہذیب کو سہارا دے کر بتایا کہ انسان کیا ہے اور انسانیت کس چیز کا نام ہے۔ شاعر حضور ﷺ کو اس عظیم ہستی کے طور پر پیش کرتا ہے جو ہر مشکل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
“تاجدار یثرب و بطحا” سے مراد وہ عظیم ہستی ہیں جو یثرب (مدینہ) اور بطحا (مکہ) کی تاجدار ہیں۔ آپﷺ کو اگرچہ مکہ سے نکال دیا تھا، لیکن آپﷺ بعد میں مکہ کے حاکم بن کر سامنے آئے۔ صرف مکہ اور مدینہ کے ہی نہیں بلکہ تمام عرب کے بادشاہ بنے۔ اور آج آپﷺ کا دین، اور آپﷺ کی تعلیمات پوری دنیا میں آپﷺ کے نام کی طرح مقبول ہیں۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
شعر11: بپتا سنائیں جاکے تمہارے سوا کسے ہم بے کسان ہند کے ملجا تمہیں تو ہو
تشریح: اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سہارا قرار دیا گیا ہے۔ “بپتا سنائیں” سے مراد یہ ہے کہ اپنی تکلیفیں اور مصیبتیں کسے سنائیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم بے کس لوگ ہیں اور ہمارا سہارا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ “ہند کے ملجا” سے مراد یہ ہے کہ ہندوستان کے بے کس لوگوں کا سہارا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ شاعر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا واحد سہارا اور پناہ گاہ قرار دیتا ہے۔
خلاصہ
اس نظم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو کائنات کی تخلیق کا مرکز، زندگی کا مقصد، اور ہر مشکل میں مددگار قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نورِ اولیٰ، رحمتِ دو جہاں، اور بے مثال ہستی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور اہمیت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ نظم دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو تشریح
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.