احسان دانش کی نظم تعمیر چمن کی تشریح
اس آرٹیکل میں احسان دانش کی نظم تعمیر چمن کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ یہ نظم احسان دانش کی حب الوطنی، قربانی اور اتحاد پر مبنی سوچ کا مظہر ہے۔ شاعر نے پوری نظم میں وطن کی خدمت، نوجوانوں کی سرگرمی، ایثار، اتحاد اور قومی یکجہتی کو موضوع بنایا ہے۔ ’’چمن‘‘ کی علامت سے مراد وطن ہے جس کی حفاظت اور تعمیر کے لیے شاعر ہر قیمت پر جدوجہد کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ نظم میں قومی جذبہ، قربانی، دیوانگی اور بے غرض خدمت کے عناصر نمایاں ہیں۔ شاعر نے نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کیا ہے کہ وہ عمل، ہمت اور جذبے سے سرشار رہیں اور کبھی تھکن یا مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
شعر1۔
جس طرح ممکن ہو تعمیر چمن کرتے رہو کام اپنا اے محبان وطن کرتے رہو
تشریح: شاعر اپنے ہم وطنوں کو تلقین کر رہا ہے کہ وطن کی بہتری اور ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہو۔ ’’چمن‘‘ سے مراد وطن ہے اور اس کی تعمیر سے مراد ملک کو سنوارنا، اس کی خدمت اور ترقی میں حصہ لینا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ چاہے جیسے بھی حالات ہوں، اپنے وطن کی خدمت ترک نہ کرو۔ ’’محبانِ وطن‘‘ یعنی وطن سے محبت کرنے والوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ تمہارا اصل کام اور مقصد اپنے ملک کی بھلائی ہے، اور تمہیں ہمیشہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہنا ہے۔ یہ شعر قومی خدمت، حب الوطنی اور ایثار کا درس دیتا ہے۔
شعر2۔
زندگی یکسر محرک ہے سکوں یکسر ہے موت کچھ نہ کچھ اے نوجوانان وطن کرتے رہو
تشریح: یہاں شاعر کہتا ہے کہ زندگی حرکت اور عمل کا نام ہے، اگر کوئی سکون اور کاہلی اختیار کرے تو یہ دراصل موت کے مترادف ہے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ وہ زندگی میں ہمیشہ فعال اور متحرک رہیں۔ شاعر یہ باور کرا رہا ہے کہ ایک جاندار اور زندہ قوم ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے، جدوجہد کرتی ہے۔ کاہلی اور بے عملی سے بچنا اور مسلسل جدوجہد کرنا ہی زندگی کی علامت ہے۔ یہ شعر نوجوانوں کو محنت، عمل اور سرگرمی کا پیغام دیتا ہے۔
شعر3۔
پتی پتی پر چمن کی جان چھڑکو دوستو رات دن خدمات ارباب چمن کرتے رہو
تشریح: شاعر اپنے ہم وطنوں سے کہتا ہے کہ اپنے چمن یعنی وطن کے ہر پھول، ہر پتے پر اپنی جان نچھاور کرو۔ یعنی اپنے ملک کے ذرے ذرے سے محبت کرو۔ ’’اربابِ چمن‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو چمن یعنی ملک کے نگہبان یا ذمہ دار ہیں، یعنی اپنے ساتھی شہری یا ملک کے رہنما۔ شاعر کہتا ہے کہ دن رات اپنی قوم اور وطن کے لیے کام کرو اور ہر دم اس کی بہتری اور حفاظت میں جٹے رہو۔ یہ شعر ایثار، قربانی اور وطن پرستی کا جذبہ اجاگر کرتا ہے۔
شعر4۔
آندھیوں کا کیا بھروسہ کیا بگولوں کا یقیں روز اونچی اپنی دیوار چمن کرتے رہو
تشریح: شاعر یہاں زندگی کے تغیرات اور دنیاوی فتنوں کو ’’آندھی‘‘ اور ’’بگولے‘‘ کہہ کر تشبیہ دیتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ان طوفانی حالات اور غیر یقینی فتنوں پر اعتبار نہیں، یہ کسی بھی وقت تباہی لا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر دن اپنے چمن یعنی وطن کی دیوار کو بلند کرتے رہیں، یعنی اپنے ملک کو ہر خطرے سے محفوظ بنانے کے لیے مستحکم کریں۔ قوم کو مشکل حالات کے مقابلے کے لیے تیار رہنے اور دفاع مضبوط کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
شعر5۔
لطف ہی کیا ہے اگر بولے نہ ہر رخ سے جنوں ہوش سے بچتے چلو دیوانہ پن کرتے رہو
تشریح: شاعر یہاں جذبہ اور جنون کو عمل کی بنیاد بتا رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر ہر سمت، ہر پہلو سے جنون (یعنی سچی لگن، بے خودی اور جذبہ) ظاہر نہ ہو تو اس میں کوئی مزہ نہیں۔ یعنی محض عقل اور ہوش کے ساتھ محدود نہ رہو، بلکہ اپنے جذبہ اور ولولہ کو بھی ساتھ رکھو۔ شاعر نوجوانوں کو تلقین کرتا ہے کہ ایک حد تک عقل کا ساتھ دو، مگر اصل طاقت وہ دیوانگی اور جنون ہے جو قوم کو ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے۔ یعنی خواب دیکھنے اور قربانی دینے کا جذبہ ضروری ہے۔
شعر6۔
یوں ہی قطرہ قطرہ بن جاتا ہے سیل بے کراں غم نصیبوں کو شریک انجمن کرتے رہو
تشریح: شاعر کہتا ہے کہ قطرہ قطرہ مل کر ایک عظیم سیلاب بن جاتا ہے، یعنی چھوٹی چھوٹی کوششیں مل کر بڑی تبدیلی لاتی ہیں۔ اسی طرح ایک فرد، ایک دل شکستہ اور محروم انسان کو اگر سوسائٹی میں جگہ اور ساتھ ملے تو وہ بھی کارآمد اور فعال بن سکتا ہے۔ شاعر یہاں یہ پیغام دے رہا ہے کہ کمزوروں، غم زدوں اور پسے ہوئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلو، تاکہ قوم میں اتحاد، ہمدردی اور اجتماعیت پیدا ہو۔ ہر فرد کو اہمیت دو تاکہ معاشرہ مضبوط ہو۔
شعر7۔
انتشار اک پیش نامہ ہے زوال ملک کا اتحاد قوم و ملت کا جتن کرتے رہو
تشریح: شاعر خبردار کر رہا ہے کہ اختلاف، تفرقہ اور انتشار کسی قوم کے زوال کی نشانی ہوتے ہیں۔ جب قوم متحد نہ رہے تو اس کا بکھرنا اور کمزور ہونا یقینی ہے۔ اس لیے شاعر قوم سے اپیل کرتا ہے کہ ہمیشہ اتحاد کو فروغ دو، آپس میں میل جول رکھو اور قوم و ملت کی یکجہتی کے لیے کام کرتے رہو۔ یہ شعر اتحاد کی اہمیت اور انتشار کے خطرات پر زور دیتا ہے۔
شعر8۔
دوستی احسان دانش کچھ نہیں اس کے سوا زندگی بھر اعتراف حسن ظن کرتے رہو
تشریح: شاعر اس شعر میں دوستی اور حسنِ سلوک کا فلسفہ بیان کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دوستی اور تعلقات کی اصل بنیاد یہی ہے کہ ہم زندگی بھر دوسروں کے حسنِ ظن (نیک گمان) کا اعتراف کرتے رہیں، یعنی ہمیشہ دوسروں کی بھلائی اور اچھائی کا اعتراف کریں۔ احسان مندی اور شکرگزاری کو اہمیت دیں۔ دوستوں کے اچھے رویے اور خلوص کو ماننا اور سراہنا ہی دوستی کا حقیقی تقاضا ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.