احمد فراز کی غزل لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے کی تشریح
احمد فراز کی یہ غزل صرف سیاسی یا سماجی تنقید نہیں، بلکہ ایک گہری فکری اور انسانی حقیقت کا بیان ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں ظلم، جبر، اخلاقی گراوٹ، اور سماجی بے حسی کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔ ہر شعر میں ایک الگ پیغام چھپا ہے، جو قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس طرح کے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اس آرٹیکل میں احمد فراز کی غزل لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور بارہویں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر 1: لب کشا لوگہیں ، سرکار کو کیا بولنا ہے۔ اب لہو بولے گا، تلوار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جب عوام خود بولنے لگیں اور ان کا لہو چیخ اٹھے، تو حاکم یا تلوار کو کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
تشریح: اس شعر میں احمد فرازؔ نے جبر کے خلاف اٹھنے والی عوامی آواز اور بیداری کو بیان کیا ہے۔ “لب کشا ہیں لوگ” یعنی اب عوام خاموش نہیں، بلکہ سچ بولنے لگے ہیں۔ یہ سطر اس معاشرتی لمحے کی تصویر کشی کرتی ہے جب طویل ظلم سہنے کے بعد عوام میں شعور آتا ہے اور وہ احتجاج کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ “سرکار کو کیا بولنا ہے” — اس فقرے میں طنز بھی ہے اور بے نیازی بھی۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اب سرکار کی باتیں بےاثر ہو چکی ہیں، کیونکہ سچ سامنے آ چکا ہے۔ وہ وقت گزر گیا جب حکومت اپنی چالاک باتوں سے عوام کو بہلا سکتی تھی۔
دوسرے مصرعے میں ایک گہری علامت ہے: “اب لہو بولے گا، تلوار کو کیا بولنا ہے”۔ اب گفتگو کا ذریعہ زبان نہیں بلکہ وہ خون ہے جو بہایا گیا۔ جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور زبان پر تالے لگ جائیں، تب مظلوم کا لہو خود اپنی گواہی بن جاتا ہے۔ “تلوار کو کیا بولنا ہے” کا مطلب یہ ہے کہ اب ظلم کی علامتیں — مثلاً طاقت، ہتھیار، جبر — بےاثر ہو چکی ہیں۔ جب خون چیخ اٹھے، تو تلوار خاموش ہو جاتی ہے۔ یہ شعر ظلم کے خلاف عوامی بیداری، انقلابی ردعمل اور زبانِ حال سے بیان کیے گئے احتجاج کا ایک پُرزور اظہار ہے۔ احمد فرازؔ کا انداز یہاں صرف احتجاجی نہیں بلکہ شاعرانہ بھی ہے، جو دل کو چیرتا اور ذہن کو جھنجھوڑتا ہے۔
شعر 2: بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو۔ ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جب ہر طرف ضمیر فروش موجود ہوں، تو وہاں کسی کو خریدنے والے سے کیا گلہ کیا جائے۔
تشریح: یہ شعر اخلاقی گراوٹ اور ضمیر فروشوں کی حالت کی تصویر کشی کرتا ہے۔ “بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو” — شاعر یہاں کہتا ہے کہ جب لوگ اپنے ضمیر کو بیچنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ایسے ماحول میں، جہاں ہر شخص اپنی قیمت پر بک رہا ہو، وہاں خریدار (جو کہ حکمران یا طاقتور طبقہ ہو سکتا ہے) کو کیا گلہ کیا جائے؟ یہ شعر سماجی اخلاقیات کے زوال کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں کوئی بھی سچائی یا اصول باقی نہیں رہتا۔ جب ہر شخص مفاد پرست ہو، تو پھر سوال اٹھانا بے معنی ہو جاتا ہے۔
شعر 3: لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے۔ مجھ کو معلوم ہے، کس یار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: اب گواہی دینے والے بھی منافق ہو چکے ہیں، اور شاعر جانتا ہے کہ کس شخص کے سامنے کیا بات کی جائے۔
تشریح: اس شعر میں فرازؔ عدلیہ اور گواہی کے نظام پر ایک گہری تنقید کرتے ہیں۔ “عدالت میں گواہی دینے” سے مراد وہ لوگ ہیں جو انصاف کے نام پر جھوٹی گواہیاں پیش کرتے ہیں۔ فرازؔ اس گواہی کی حقیقت کو جانتے ہیں اور اس شعر میں یہ بتایا گیا ہے کہ کچھ افراد مخصوص افراد کے حق میں گواہی دینے کے لیے آتے ہیں، جبکہ سچ جانتے ہوئے بھی وہ جھوٹ بولنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شاعر یہ بھی جانتا ہے کہ ان لوگوں کو کس طرح بولا جائے گا، کیونکہ ان کی گواہی پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
شعر 4: اگر کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا۔ پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: اگر لوگ تھوڑا سا دھیان دیں تو وہ خود حق اور سچ کو سن سکتے ہیں، ورنہ بے مقصد نشانیوں (جیسے دیوار کے چراغ) سے کچھ کہنے کا فائدہ نہیں۔
تشریح: یہ شعر انسان کی سماعت اور فہم کی کمی پر تنقید کرتا ہے۔ “اگر کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا” — شاعر کہتا ہے کہ اگر لوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ارد گرد کی آوازوں پر دھیان دیں، تو وہ سچ کو سن سکتے ہیں۔ اس کے بعد کی لائن “پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے” میں ایک گہری علامت چھپی ہے۔ چراغ سرِ دیوار، جو ایک علامت ہے کہ حقیقت سامنے آ چکی ہے، کو بولنے کی ضرورت نہیں۔ حقیقت روشن ہو چکی ہے، لیکن لوگ اس پر دھیان نہیں دیتے۔ اس شعر میں سماجی غفلت اور سچ کو نظرانداز کرنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
شعر 5: مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری۔ اک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جب کوئی شخص سولی پر ہو تو اس کی خواہش پوچھنا بےمعنی ہے، وہ سب کچھ پہلے ہی قربان کر چکا ہے۔
تشریح: اس شعر میں انسان کی آخری خواہش کو پیش کیا گیا ہے، جو سولی پر چڑھنے والے گناہگار کی حیثیت میں ہے۔ “آخری خواہش میری” — شاعر اپنی آخری خواہش کا ذکر کرتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ اس گناہگار کی خواہشیں اب بے معنی ہیں۔ “اک گنہگارِ سرِ دار” کی صورت میں انسان اپنی سولی پر چڑھ رہا ہے اور اس کے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ اس شعر میں دنیاوی خواہشات کے عارضی ہونے اور موت کی حقیقت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
شعر 6: خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد۔ اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جب حاکم کا حکم آ جائے اور عوام خاموش ہو جائیں، تو حقیقت جاننے والوں کے لیے کچھ کہنا باقی نہیں رہتا۔
تشریح: یہ شعر سلطنتوں اور طاقتور حکمرانوں کے زیرِ اثر آنے والے معاشروں کی حالت کو بیان کرتا ہے۔ “خلقتِ شہر ہے چُپ” — جب بادشاہ کا فرمان آتا ہے، تو شہر کی ساری خلقت خاموش ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد “کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے” کا مطلب ہے کہ جو لوگ سچائی یا راز جانتے ہیں، وہ بھی اب خاموش ہیں، کیونکہ کوئی بھی آواز اٹھانا خطرے میں ڈالنا ہے۔ یہ شعر سماجی خوف اور حکومتی جبر کو واضح کرتا ہے۔
شعر 7: وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے۔ کب، کہاں، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جو کھیل کا ہدایت کار ہے وہی جانتا ہے کہ کون سا کردار کب اور کیا کہے گا — باقی سب محض مہرے ہیں۔
تشریح: یہ شعر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جو “تماشہ گر” یا پردے کے پیچھے سے کھیلنے والا شخص ہے، وہی جانتا ہے کہ کب اور کس کردار سے کیا کہنا ہے۔ شاعر نے یہاں طاقتور طبقے یا نظام کی طرف اشارہ کیا ہے، جو عوامی منظرنامے کے پیچھے چھپ کر سب کچھ کنٹرول کرتا ہے۔ یہ تماشا ایک ڈرامے کی طرح ہوتا ہے، جہاں حقیقت کو پردے کے پیچھے چھپایا جاتا ہے۔
شعر 8: جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ۔وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے
مفہوم: جہاں چاپلوسوں اور درباریوں کا راج ہو، وہاں بلند سوچ رکھنے والے غالب جیسے لوگوں کے چاہنے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
تشریح: اس شعر میں احمد فرازؔ نے غالبؔ کا ذکر کر کے اُس دور کی درباری سیاست کی حقیقت بیان کی ہے۔ “جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں” — یہاں شاعر دربار کے لوگوں کی منافقت اور چاپلوسی کو بیان کرتا ہے۔ “وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے” — جب معاشرہ حکومتی چاپلوسوں سے بھرا ہوا ہو، تو ایسے میں غالبؔ جیسے لوگوں کے پیروکاروں کی آواز کو کیسے سنا جائے؟ شاعر نے یہاں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ جب اقتدار کی حقیقت پوشیدہ ہو، تو حقیقت پسند افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from Ilmu علمو
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.