احمد ندیم قاسمی کی غزل کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا کی تشریح

احمد ندیم قاسمی کی غزل کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا کی تشریح

احمد ندیم قاسمی کی یہ غزل محبت، وفا، زندگی اور فنا کے گہرے فلسفے کو نہایت سادگی اور سلیقے سے بیان کرتی ہے۔ ہر شعر ایک مکمل خیال، ایک مکمل دنیا ہے جو انسان کے داخلی جذبات، روحانی کیفیات اور وجودی سفر کو چھوتی ہے۔ شاعر کہیں موت کو سمندر میں اترنے کا استعارہ بناتا ہے، تو کہیں محبوب کی جدائی کو صحرا میں بکھر جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس غزل میں نہ صرف عشق کی شدت ہے بلکہ صبر، ایثار، اور حوصلے کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ قاسمی کا اسلوب سادہ مگر پراثر ہے، اور یہ غزل اردو ادب میں ان کی فکری گہرائی کا خوبصورت مظہر ہے۔ اس آرٹیکل میں احمد ندیم قاسمی کی غزل کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور بارہویں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

شعر 1:     کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
مفہوم
:     شاعر کہتا ہے کہ موت میرے لیے اختتام نہیں، بلکہ ایک نیا آغاز ہے۔ میں ایک دریا کی مانند ہوں جو مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتا، بلکہ سمندر (یعنی ازلی و ابدی وجود) میں شامل ہو جاتا ہے۔
تشریح:    یہ شعر انسانی روح کی ابدیت اور فنا کے تصور پر روشنی ڈالتا ہے۔ شاعر موت کو ایک ایسی حقیقت مانتا ہے جو جسمانی وجود کا اختتام تو ہو سکتی ہے، مگر روحانی وجود کی نئی منزل ہے۔ “دریا” اور “سمندر” کے استعارے استعمال کرتے ہوئے، وہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ ایک مسلسل بہاؤ کا حصہ ہیں۔ یہ خودی کی علامت بھی ہو سکتی ہے کہ شاعر اپنے وجود کو عام انسانوں کی طرح محدود نہیں سمجھتا بلکہ ایک لا محدود کائناتی سچائی کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس میں تصوف کی جھلک بھی ہے، جہاں “موت” وصال کا در ہے اور “سمندر” خدا یا حق کی علامت ہو سکتا ہے۔

شعر 2:     تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا۔ گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا
مفہوم
:      شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ اگر تیرا در چھوڑ دوں تو میرے لیے کوئی اور پناہ نہیں۔ تیرا در ہی میرا اصل گھر ہے، ورنہ میں کہیں نہیں رہ پاؤں گا۔
تشریح:    یہ شعر وفا اور عقیدت کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ “تیرا در” محبوب یا خدا کی علامت ہو سکتا ہے، اور شاعر اس سے جُدا ہو کر اپنے وجود کے بکھرنے کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے۔ “گھر میں گھر جانا” ایک گہرا استعارہ ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اگر ظاہری طور پر کسی اور جگہ جا بھی لوں، تو دل و دماغ وہیں کے طلبگار رہیں گے۔ اور اگر ترک کر دوں تو “صحرا میں بکھر جانا” یعنی بے مقصد، بے سمت زندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بیتابی، اضطراب، اور روحانی الجھن کی عکاسی ہے۔

شعر 3:    تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے۔ صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
مفہوم
:     اگر میں تجھ سے دور ہو کر جاؤں گا، تو ہر جگہ تجھے ہی پاوں گا۔ تیری یاد اور تیری صورت سے بچاؤ ممکن نہیں۔
تشریح:    یہ شعر عشق میں مکمل وابستگی اور فنا فی المحبوب کے تصور کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی قربت چھوڑ کر کہیں بھی جاؤں، ہر چہرے میں، ہر منظر میں اسے ہی دیکھوں گا۔ یہ ایک قسم کا جذبِ عشق ہے جہاں معشوق کی موجودگی ہر شے پر طاری ہو چکی ہے۔ اس شعر میں محبوب کی مرکزیت اور شاعرانہ جبر کی تصویر ملتی ہے کہ ہجر میں بھی وصال کا رنگ چھپا ہے، اور جدائی میں بھی محبوب کی جھلک موجود ہے۔

شعر 4:    اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح۔سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
مفہوم
:     شاعر کہتا ہے کہ اب جب تیرے شہر آؤں گا، تو اجنبی بن کر آؤں گا۔ کسی بادل کے سائے کی طرح آؤں گا اور بغیر کوئی شور کیے، بغیر ٹھہرے گزر جاؤں گا۔
تشریح:    یہ شعر ایک گہرے جذباتی ردِ عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر پہلے جس شہر (یا محبوب کی بستی) کا باسی تھا، اب وہاں صرف ایک مسافر کی طرح آئے گا۔ اس میں احساسِ اجنبیت، دل شکستگی، اور بےنیازی جھلکتی ہے۔ “سایۂ ابر” کا استعمال نہایت لطیف ہے؛ بادل سایہ دیتے ہیں، مگر ان کا قیام عارضی ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اب اس شہر سے جُڑاؤ باقی نہیں رہا، اب وہ عارضی، خاموش، اور غیر محسوس انداز میں بس گزر جائے گا۔ اس میں ماضی کی محبت اور موجودہ لاتعلقی کے درمیان ایک المیہ سا رنگ بھی ہے۔

شعر 5:     تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا۔ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا
مفہوم
:     شاعر کہتا ہے کہ تیرے ساتھ کیے ہوئے وعدے نے میری راہ میں رکاوٹ بنادی۔ ورنہ میں نے تو یہ سوچ رکھا تھا کہ جب دل کرے گا، موت کو گلے لگا لوں گا۔
تشریح:    یہ شعر انسانی اختیار، جذبہ، اور وعدوں کی زنجیر کے درمیان تعلق کو بیان کرتا ہے۔ “پیمانِ وفا” یعنی وفاداری کا عہد، شاعر کو خود پر اختیار سے محروم کر دیتا ہے۔ زندگی سے بیزاری کے باوجود وہ اس عہد کی وجہ سے خود کو موت کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ یہ وفاداری کی انتہا ہے کہ شاعر نے اپنی موت کا فیصلہ بھی محبوب کی وفا پر چھوڑ دیا۔ اس میں فکری گہرائی اور جذبے کی شدت دونوں پائے جاتے ہیں۔

شعر 7:    چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں۔زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
مفہوم
:     میں عام لوگوں یا معالجوں جیسا نہیں ہوں، جو زخموں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں تو زخم کھا کر اور نکھر جاتا ہوں۔
تشریح:    یہ شعر خود داری، صبر، اور ارتقاء کا پیغام دیتا ہے۔ “چارہ ساز” عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے زخموں کا علاج کرتے ہیں، لیکن شاعر کہتا ہے کہ اس کی طبیعت ایسی ہے کہ زخم اسے بگاڑتے نہیں بلکہ سنوارتے ہیں۔ یہ ایک پختہ شخصیت کی علامت ہے، جو آزمائشوں میں کمزور نہیں پڑتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ زخم کو خوبصورتی یا نکھار کا ذریعہ سمجھنا، صوفیانہ سوچ کی جھلک بھی دیتا ہے، جہاں درد کو رشد و ہدایت کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔

شعر 8:    اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں۔ اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
مفہوم
:     اب تو سورج (روشنی یا رہنما) کو گزرے بہت عرصہ بیت چکا ہے، اب میں اسے پوری رات تلاش کرتا رہوں گا۔
تشریح:    یہ شعر امید، تلاش، اور اندھیرے کے خلاف جدوجہد کا استعارہ ہے۔ “خورشید” سورج، جو روشنی اور زندگی کی علامت ہے، اسے شاعر کھو چکا ہے، اور اب وہ اسے پانے کی جستجو میں ہے۔ “تا بہ سحر” یعنی رات بھر کی تلاش اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شاعر ابھی بھی ناامید نہیں ہوا۔ یہ شعر ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے جو اندھیروں میں امید کی روشنی تلاش کرتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت کی تصویر ابھرتی ہے جو تھکنے کے باوجود رکنے پر آمادہ نہیں۔

شعر 9:     زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ۔ بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
مفہوم:     
شاعر اپنی زندگی کو ایک شمع کی مانند جلاتا ہے، جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بجھ جائے گا، مگر اس سے پہلے صبح ضرور کر جائے گا۔
تشریح:    یہ شعر خود قربانی، ایثار، اور خدمتِ خلق کے جذبے سے لبریز ہے۔ شاعر اپنی زندگی کو شمع کے استعارے سے بیان کرتا ہے، جو جلتی تو ہے، مگر اندھیرے کو روشنی میں بدلتی ہے۔ “بجھ تو جاؤں گا” موت کی طرف اشارہ ہے، مگر “صبح تو کر جاؤں گا” اس کی مثبت زندگی اور انسانیت کی خدمت کا بیان ہے۔ یہ شعر حوصلہ دیتا ہے کہ اگرچہ زندگی فانی ہے، مگر اس کا مقصد روشنی پھیلانا ہے، چاہے اس میں فنا ہی کیوں نہ ہو۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Index

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading