ادا جعفری کی غزل ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے کی تشریح
غزل “ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے” اردو کی ممتاز شاعرہ ادا جعفری کی تخلیق ہے، جو اپنے حساس اور دلکش اندازِ بیان کے لیے مشہور ہیں۔ ادا جعفری نے روایتی موضوعات کو جدید اسلوب میں پیش کیا ہے۔ اس غزل میں محبت، اداسی، حسرت، اور انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ شاعرہ نے عشقیہ جذبات کو بڑی نزاکت اور گہرائی کے ساتھ اشعار میں سمویا ہے۔ ادا جعفری کی یہ غزل عشق، وفا، امید، اور محرومی جیسے موضوعات کو نرمی اور گہرائی کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ہر شعر میں ایک لطیف درد اور محبوب سے وابستہ امید کی جھلک ملتی ہے۔ یہ غزل قاری کو عشق کے راستے کی صعوبتوں اور اس کی شدت میں چھپی ایک خاص قسم کی خوبصورتی کا احساس دلاتی ہے۔ اس آرٹیککل میں ادا جعفری کی غزل ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔
شعر 1۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
مفہوم۔ مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ محبوب میرا ذکر کس انداز میں کرے، خواہ بدنامی کے طور پر ہی کیوں نہ ہو، بس میرا نام اس کے ہونٹوں پر آنا چاہیے۔
تشریح۔ یہ شعر محبت میں شدید خواہش اور تمنّا کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ عاشق کے دل میں یہ تمنا ہے کہ کبھی تو محبوب کے ہونٹوں پر میرا نام آ جائے، چاہے وہ نیک نامی میں نہ آئے، بلکہ الزام کے طور پر ہی کیوں نہ سہی۔ اس میں اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جب عاشق محبت کی گہری وادیوں میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے دنیاوی عزت یا بدنامی کی پروا نہیں رہتی۔ بس اس کے دل کی خلش یہ ہے کہ محبوب اسے یاد کرے، اس کا ذکر کرے، اس کے دل میں کسی بھی عنوان سے موجود تو رہے۔ یہاں محبوب کی لاتعلقی اور عاشق کی شدید طلب کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ “بر سر الزام” ایک علامتی کیفیت ہے، جو بتاتی ہے کہ عشق میں بدنامی اور رسوائی بھی قبول ہے، کیونکہ عاشق کے لیے اصل قیمتی چیز محبوب کی توجہ ہے۔ یہ شعر عاشق کی خودسپردگی اور قربانی کے جذبے کو نمایاں کرتا ہے، جہاں عاشق اپنا نام، اپنی عزت اور معاشرتی مقام سب کچھ محبت کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہے۔
شعر2۔
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
مفہوم۔ فضا میں اداسی چھائی ہوئی ہے اور غنچے خاموش اور افسردہ ہیں، مگر پھر بھی خوشبو کے ذریعے محبوب کا پیغام دل تک پہنچ گیا ہے۔
تشریح۔ یہ شعر فطرت اور جذبات کی خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ گلشن کے غنچے حیران، خاموش اور افسردہ ہیں، جیسے ان کے لب بند ہوں اور ان کے چہروں پر اداسی طاری ہو۔ اس منظر میں غنچوں کی خاموشی اور افسردگی اس انتظار کو ظاہر کرتی ہے جو محبوب کے پیغام کے لیے دل میں بسا ہوا ہے۔ مگر اس اداسی اور سکوت میں بھی خوشبو ایک راز داں کی مانند پیغام لے کر آتی ہے۔ خوشبو جو فضا میں بکھرتی ہے، اسے شاعرہ نے محبوب کے پیغام کی علامت قرار دیا ہے۔ یعنی جب کوئی لفظی یا زبانی پیغام نہ پہنچا، تو قدرت نے خوشبو کے ذریعے ہی دل کی بات پہنچا دی۔
یہاں شاعرہ نے فطرت کے عناصر، جیسے غنچے اور خوشبو، کو عشق کے جذباتی پس منظر میں پیش کیا ہے، جو محبت کی نرمی اور درد کو ایک نئی معنویت دیتا ہے۔ غنچوں کی لب بستگی دراصل عاشق کے دل کی خاموشی اور غم کی علامت ہے اور خوشبو محبوب کے نادیدہ پیغام کی صورت میں آتی ہے، جس سے عاشق کو سکون اور تسلی ملتی ہے۔
شعر3۔
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
مفہوم۔ میری یادوں میں کبھی خوشی کے لمحے نہیں آتے، جب بھی یادوں کا سلسلہ چلا، صرف غم اور دکھ کی گھڑیاں ہی یاد آئیں۔
تشریح۔ یہ شعر زندگی میں خوشیوں کی کمی اور غموں کی بہتات کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ خوشی کے لمحات تصور سے بھی دور بھاگتے ہیں، یعنی جب بھی ہم کسی لمحۂ مسرت کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کہیں کھو جاتے ہیں اور اس کے بجائے ہمیشہ غم و آلام ہی یاد آتے ہیں۔
یہ انسانی زندگی کے اس پہلو کی بات ہے جہاں دکھ اور درد اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ انسان ماضی کی خوشیوں کو بھی یاد نہیں رکھ پاتا۔
یہاں شاعرہ نے محرومی اور دل شکستگی کو نہایت سادگی مگر اثر انگیزی سے بیان کیا ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبت یا زندگی کے نشیب و فراز میں دکھ اس حد تک بڑھ جائے کہ ذہن خوشی کو مکمل بھول جائے اور غم ہی غالب رہے۔
عاشق کی زندگی میں محبوب کی جدائی یا تلخ یادیں اس حد تک چھا گئی ہیں کہ اب وہ خوشی کے لمحے بھی محض خواب و خیال بن چکے ہیں۔ اس شعر میں نا امیدی، افسردگی اور زندگی کی تلخ حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح غم انسان کے شعور پر حاوی ہو جاتا ہے۔
شعر4۔
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
مفہوم۔ اگر خوشیوں کی صبح نصیب نہیں ہو رہی تو کوئی بات نہیں، ہم اداسی کی شام کو ہی امید کے تاروں سے سجا کر اپنا راستہ روشن کر لیں گے۔
تشریح۔ یہ شعر ہمت اور عزم کی خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ اگر زندگی میں صبح یعنی خوشی اور کامیابی ممکن نہیں، تو ہم شام یعنی اداسی اور محرومی ہی سہی، مگر اپنی راہ کو تاروں سے سجا لیں گے۔ یہاں “تارے” علامتی طور پر امید، خواب اور چھوٹے چھوٹے امکانات کی علامت ہیں۔ جبکہ “شہر تمنا” عشق یا مقصود کی وہ منزل ہے جہاں عاشق پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ شعر اس بات کی علامت ہے کہ اگر خوشیوں کی صبح نصیب نہیں ہو رہی، تو عاشق صبر و قناعت اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے اپنی راہ کو روشن کر لے گا۔ یہ عاشق کے مثبت رویے اور استقامت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں وہ مایوسی میں بھی امید کی کرن ڈھونڈ لیتا ہے۔ شاعرہ نے اس شعر میں مایوسی کے باوجود جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ “مقدور نہیں صبح” کا مطلب ہے کہ اگر بڑی کامیابیاں یا محبت کی مکمل قربت میسر نہیں، تو چھوٹے چھوٹے خواب اور خوشبوؤں سے دل بہلا لیں گے۔ یہ شعر امید اور استقامت کا خوبصورت پیغام ہے۔
شعر5۔
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
مفہوم۔ ہمیں ہم سفروں کے راستہ بدلنے کا کوئی شکوہ نہیں، کیونکہ جس راستے سے ہم چلے، وہ ہمیں بالآخر محبوب کی دہلیز تک ہی لے آیا۔
تشریح۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ ہمیں ہم سفروں (ساتھیوں) سے راستہ بدلنے کا شکوہ نہیں، کیونکہ جس راہ پر ہم چلے، وہ ہمیں محبوب کے در و بام یعنی محبوب کی چوکھٹ اور اس کے آستانے تک ہی لے آئی۔ یہاں “راہ” کا مطلب زندگی یا عشق کا سفر ہے اور “در و بام” سے مراد محبوب کا آستانہ یا محبوب کا قرب ہے۔ یہ شعر اس سچ کو قبول کرنے کی علامت ہے کہ راستہ کوئی بھی ہو، انجام وہی ہونا تھا جو مقدر میں لکھا تھا۔ شاعرہ عاشق کے اس مزاج کو بیان کرتی ہیں کہ عشق میں جو بھی صعوبتیں آئیں، یا جو ہم سفر راستے بدل گئے، ان سے گلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ میرا اصل مقصد تو محبوب کی دہلیز پر پہنچنا تھا، اور وہ حاصل ہو گیا۔ یہ شعر عشق کی راہ میں خود سپردگی، تسلیم و رضا اور صبر کا پیغام دیتا ہے۔ شاعرہ کے یہاں عشق کی راہوں کی بھٹکاہٹ یا مصیبتیں بے معنی ہو جاتی ہیں جب محبوب کی قربت میسر آ جائے۔
شعر6۔
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
مفہوم۔ محبت کی راہوں میں تھک ہار کر بیٹھ چکے ہیں، مگر اس ناکامی کے بعد بھی اگر کچھ کام آ سکتا ہے تو وہ دل کا یہی شکست خوردہ جذبہ ہے۔
تشریح۔ یہ شعر محبت کی انتہا اور عاشق کی تھکن و مایوسی کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ ہم تمنّا کے کوچے میں تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں، یعنی عشق کی راہ میں صعوبتیں جھیل کر، جدوجہد کر کے اب بے بسی کی حالت میں ہیں۔ لیکن اس تھکن کے باوجود دل میں ایک ایسا جذبہ باقی ہے جو ناکامی کے باوجود جیتا ہے، اور وہ ہے “جذبۂ ناکام”۔ یہ جذبہ دراصل وہ حوصلہ ہے جو شکست کے بعد بھی انسان کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ شاعرہ نے یہاں محبت میں ناکامی کے بعد بھی دل کے اندر موجود امید کی کرن اور ضد کو بیان کیا ہے، جو عاشق کو عشق کے سفر میں قائم رکھتی ہے۔ یہ شعر اس بات کا بیان ہے کہ اگرچہ جسمانی یا ذہنی تھکن آ چکی ہے، مگر دل کا جذبہ اب بھی زندہ ہے، اور یہی ناکامی کے بعد کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ یہ عاشق کے ناقابل شکست عزم اور قربانی کے جذبے کو خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔
شعر 7۔
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
مفہوم۔ اگر عشق کرتے ہوئے دل میں انجام یا ناکامی کا خوف آ جائے تو پھر عشق کی دیوانگی اور بے خودی کی حقیقت اور وقار باقی نہیں رہتی۔
تشریح۔ شاعرہ نے یہاں عشق کی دیوانگی اور قربانی کا کمال بیان کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر دل میں انجام یا نتیجے کا خوف پیدا ہو جائے تو عشق کی دیوانگی کی ساکھ باقی نہیں رہتی۔ یہ شعر عشق کی حقیقی روح کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں محبت بغیر کسی انجام کی فکر کے کی جاتی ہے۔ اگر عاشق یہ سوچنے لگے کہ اس کے عشق کا انجام کیا ہو گا، تو پھر وہ دیوانہ وار عشق نہیں کہلائے گا، بلکہ مصلحت پسند سمجھا جائے گا۔ “دشت جنوں” یعنی دیوانگی کا صحرا، اس جگہ کی علامت ہے جہاں عاشق سب کچھ چھوڑ کر محبوب کے عشق میں کھو جاتا ہے۔ اس شعر میں شاعرہ نے عشق کی پاکیزگی اور بے خوفی کو بیان کیا ہے کہ عشق وہی معتبر ہے جو انجام کی پرواہ کیے بغیر ہو۔ یہ شعر ہمیں عشق کے اس مرحلے سے روشناس کراتا ہے جہاں عاشق نتائج، دنیاوی رکاوٹوں یا انجام کی فکر سے آزاد ہوتا ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.