اردو قواعد کے حصے
ہم نے اس سے پہلے دیکھا کہ قواعد کیا ہوتے ہیں قواعد کسی بھی زبان کے اصول و ضوابط کو کہا جاتا ہے جس کے مطابق کسی بھی زبان کو سمجھا جا سکتا ہے اس تحریر کے ذریعے ہم جانیں گے کہ اردو قواعد کے کتنے حصے ہیں اور ان کی مختصر تعریف کریں گے
اردو قواعد کے حصے
اردو قواعد کے تین حصے ہیں
ا۔ علم ہجا یا علم حروف تہجی
ب۔ علم صرف
ج۔ علم نحو
ا۔ علم ہجا یا علم حروف تہجی
یہ سادہ آوازوں، ان کے تحریری نقول یا علامتوں پر مشتمل ہوتا ہے جب سادہ آوازیں یا حروف تحریر میں آتے ہیں تو حروف تہجی یا علم ہجا کہلاتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں علم ہجا وہ علم ہے جس میں زبان کے حروف تہجی کو الگ الگ کرنے اور املا کے بارے میں بتایا جاتا ہے، اس میں حروف کے حرکات و سکنات یعنی آوازوں اور اعراب کے متعلق وضاحت کی جاتی ہے۔ اس علم کی مدد سے حروف کا ٹھیک تلفظ معلوم ہو جا تا ہے اور اس کا معیار بھی قائم رہتا ہے۔
حروف(ابجد)
ہر زبان کچھ تحریری علامات اور نشانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ علامات اور نشانات حرف کہلاتی ہیں۔ جیسےا ۔ ب۔ پ۔ ت ۔ وغیرہ ۔ حروف کے مجموعے کو "ابجد” کہتے ہیں۔
حرف(حروف تہجی)
اردو میں حروف کی دو قسمیں ہیں؛
۔ مفرد حروف: یہ حروف صرف ایک حرف پر مشتمل ہوتے ہیں؛؛ ا ، ب ، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، ظ، ع ، غ، ف، ق، ک،گ، ل، م، ن، و، ہ ، ء، ی ، ے۔
۔مرکب حروف: 2 حروف ملکر 1 حرف بناتے ہیں؛ آ، بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ۔
علم صرف
لغت میں "صرف” بدلنے اور ہیر پھیر کرنے کو کہتے ہیں اس علم کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے اور علم صرف ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تبدیلی کس طرح ہو ی اور اس تبدیلی کے بعد کیا معنی ہوئے اور انہیں کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں اس علم کا مقصد یہ ہے کہ بولنے والا صحیح بولے
اگر مزید اسان الفاظ میں بات کریں تو علم صرف قواعد کی وہ قسم ہے جس میں الفاظ سے بحث کی جاتی ہے اس میں الفاظ کی بناوٹ ساخت اور معنی کو وضاحت سے پیش کیا جاتا ہے اس میں الفاظ کے مذکر مونث واحد جمع اسم فعل اور حرف وغیرہ ہونے کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ کون سا لفظ کیا حیثیت رکھتا ہے علم صرف میں ماہر شخص کو صرف ہی کہا جاتا ہے
ج۔ علم نحو
یہ وہ علم ہے جس میں کلموں کی باہمی ترتیب اور تعلق کا حال معلوم ہوتا ہے اس کی غرض و غائب یہ ہے کہ لکھنے والا اور بولنے والا کلموں کے بنانے میں غلطی نہ کرے ہر ایک کلمے کو صحیح ترتیب کے ساتھ اپنے محل پر جگہ دے اس میں کلام سے بحث ہوتی ہے اس لیے اس کا موضوع کلام ہے