استعارہ کی تعریف
استعارہ اردو زبان کی ایک اہم ادبی تکنیک ہے جو کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ تشبیہ دینے یا براہ راست اُس کے لیے استعمال کرنے سے بنتی ہے۔ استعارہ ہمیں کلام میں اضافی رنگ اور گہرائی فراہم کرتا ہے، جو نہ صرف بیان کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ معنی کو بھی زیادہ موثر بناتا ہے۔ استعارہ کے مختلف پہلو ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس ادبی تکنیک کی صحیح مہمیت کو جانا جا سکے۔
لغوی طور پر، "استعارہ” عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی "ادھار لینا” یا "عاریتاً لینا” ہے۔ عرف عام میں، یہ کسی لفظ یا خیال کو کسی دوسرے معنی میں استعمال کرنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ لغوی تعریف کی بنا پر، استعارہ اس عمل کو ظاہر کرتا ہے جہاں ایک چیز کے بجائے دوسری چیز کو نمایاں کیا جاتا ہے تاکہ ایک نئے معنی یا تشبیہ کو نمایاں کیا جا سکے۔
اصطلاحی طور پر، استعارہ ایک ایسی ادبی تکنیک ہے جہاں مصنف یا شاعر کسی خیال، کیفیت، یا شے کو کسی دوسرے خیال، کیفیت، یا شے کے ذریعے بیان کرتا ہے جو اُس کے معنوی خواص سے میل کھاتی ہو۔ اس میں بنیادی چیز اُس تشبیہ کی تلاش ہوتی ہے جو دونوں چیزوں یا خیالات کو آپسی تعلق سے جوڑ سکے۔ مثلاً "چاندنی جیسی ہنسی” میں ہنسی کو چاندنی کے ساتھ استعارۃً بیان کیا گیا ہے جس سے ہنسی کی چمک کو واضح کیا گیا ہے۔
ان تعریفات اور وضاحتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ استعارہ ایک عمدہ فلسفیانہ اور ادبی آلہ ہے جو کلام میں گہرائی اور خوبصورتی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اعلیٰ ادب میں استعارہ کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے تاکہ پیغام اور معنی کو زیادہ موثر اور یادگار بنایا جا سکے۔
استعارہ کی اقسام
ادبی مطالعے میں استعارہ کی مختلف اقسام نے خاص اہمیت اختیار کی ہے۔ ہر قسم کی اپنی خاصیت اور معنی ہیں جو کلام کو زیادہ مؤثر اور پراثر بناتی ہیں۔ استعارہ کی پہلی قسم "استعارہ قریبیہ” ہے۔ کسی چیز کو کسی قریبی چیز کے ذریعے مثال دینے کو استعارہ قریبیہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً، جب ہم کہتے ہیں کہ "زندگی ایک دریا ہے” تو یہ استعارہ قریبیہ ہے۔ دریا کو زندگی کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے جو کہ دونوں کے بہاؤ اور مسلسل حرکت کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری قسم "استعارہ بعیدہ” ہے جو ایک دور کی چیز کو دلالت کرتی ہے۔ مثلاً، جب ہم کہتے ہیں کہ "وہ چاند کا ٹکڑا ہے” تو یہ استعارہ بعیدہ ہے۔ یہاں چاند اور انسان کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں، لیکن ان میں موجود خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے یہ استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔
تیسری قسم "استعارہ مرکبہ” کہلاتی ہے جو کسی مرکب یا پیچیدہ خیال کو بیان کرتی ہے۔ اس قسم میں کئی چیزوں کو ملا کر ایک تصویر بنائی جاتی ہے۔ مثلاً، "زندگی خوابوں کی ایک کتاب ہے” اس میں خواب اور کتاب دونوں کو ملا کر زندگی کو مشابہت دی گئی ہے جو کہ پیچیدگی کا مجموعہ ہے۔
روزمرہ زندگی میں استعاروں کا استعمال ہمیں مختلف حالات کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں مدد دیتا ہے۔ استعارہ قریبیہ، بعیدہ اور مرکبہ کی مثالوں کے ذریعے ہم کلام کو زیادہ دلکش اور جامع بنا سکتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم دیتے وقت یا عام گفتگو میں، استعارے بات کو زیادہ دلچسپ بناتے ہیں اور موضوع کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ارکان استعارہ کی وضاحت
استعارہ ایک ایسا ادبی فن ہے جس کے ذریعے کسی شے یا خیال کو دوسرے شے یا خیال سے مشابہت دے کر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ارکان ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس ادبی ترکیب کے اصل مفہوم کو بہتر طور پر جانا جا سکے۔
‘مستعار لہ’ (جس چیز کے لیے استعارہ استعمال کیا جاتا ہے) وہ رکن ہے جس کا ذکر اصلی زندگی یا حالت سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً، "شیر” کو کسی بہادر انسان کے لیے استعمال کرنا۔ یہاں ‘مستعار لہ’ وہ شخص ہے جسے شیر کہا گیا ہے۔
‘مستعار منہ’ (جس چیز سے استعارہ لیا جاتا ہے) وہ رکن ہے جو حقیقی چیز ہوتی ہے اور جس کی خصوصیات یا صفات کو دوسرے چیز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا مثال میں، ‘شیر’ ‘مستعار منہ’ کہلاتا ہے کیونکہ یہ وہ حقیقی جانور ہے جس کی بہادری کو کسی انسان کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
‘وجہ شبہ’ (دونوں چیزوں کے درمیان مشابہت کی وجہ) وہ عنصر ہے جو ‘مستعار منہ’ اور ‘مستعار لہ’ کے درمیان مشترک ہوتا ہے اور جس کی بنا پر استعارہ بنایا جاتا ہے۔ اس مثال میں، ‘بہادری’ ‘وجہ شبہ’ ہے کیونکہ شیر کی بہادری کو انسانی بہادری کے لیے بطور مشابہت استعمال کیا گیا ہے۔
یہ تین بنیادی ارکان، ‘مستعار لہ’، ‘مستعار منہ’، اور ‘وجہ شبہ’، مل کر ایک استعارہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کی مکمل تفہیم کے بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مختلف اشخاص اور چیزوں کے درمیان تعلقات اور مشابہت کو ادبی فن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مثالوں سے استعارہ کی وضاحت
استعارہ زبان و بیان کا ایک اہم انصر ہے جس کے ذریعے خیالات اور جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں نہ صرف ادبی شہ پاروں میں پائی جاتی ہیں بلکہ روزمرہ زندگی کی گفتگو میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ آئیں، چند مثالوں کے ذریعے استعارہ اور اس کے ارکان کو سمجھتے ہیں۔
پہلی مثال، "زندگی ایک سفر ہے”، میں "زندگی” کو ایک استعارہ کے طور پر "سفر” سے ملایا گیا ہے۔ یہاں، زندگی کی لمبی اور پیچیدہ راہوں کو ایک سفر کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے جس کا اختتام ایک خاص مقصد پر ہوتا ہے۔ اس مثال میں، استعارہ زندگی کو وہ صفات عطاء کرتا ہے جو عموماً سفر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں، جیسے مشکلات، راہ کی تبدیلیاں اور منزل کی تلاش۔
روزمرہ کی زندگی کی ایک مثال، "وقت پیسہ ہے”، میں دیکھیں کہ کیسے "وقت” اور "پیسہ” کو آپس میں ملا کر وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہاں، وقت کو پیسہ کے برابر قرار دیا گیا ہے جس کی بچت اور ضیاع دونوں کی اہمیت ہوتی ہے۔
دوسری ادبی مثال علامہ اقبال کی شاعری سے لی جا سکتی ہے: "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں”۔ یہاں "ستارے” ایک استعارہ ہے جو انسان کی محدودات کی نشاندہی کرتا ہے، جب کہ "جہاں اور بھی” استعارہ ہے انسانی امکانات کی لا محدود وسعت کے لئے۔
مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ استعارہ نہ صرف ادبی شہ پاروں کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ گفتگو میں بھی گہرائی پیدا کرتا ہے۔ ان مختلف اقسام اور ارکانِ استعارہ کی وضاحت ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ استعارہ کا یہ طریقہ کیسے ہمارے خیالات اور جذبات کو مؤثر بنا سکتا ہے۔