تشبیہ کی تعریف اور اہمیت
تشبیہ عربی زبان کا ایک معروف ادبی مقام ہے جو کسی شے یا حالت کو دوسری شے یا حالت کے ذریعے زیادہ واضح اور دقیق انداز میں بیان کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی وضاحت کی جا رہی ہو اسے قاری یا سامع کی نظر میں زیادہ کھل کر، تفصیلاً اور خوش آئیند طریقے سے پیش کیا جائے۔ تشبیہ کی اہمیت نہ صرف ادبی متون میں بلکہ روزمرہ زبان میں بھی بہت زیادہ ہے کیوں کہ اس سے اظہارِ خیال کو تقویت ملتی ہے اور تاثرات کو مزید محسوس کرنے کا موقع ملتا ہے۔
مثال کے طور پر، جب کسی شخص کی سخاوت کو دریا کی وسعت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو قاری یا سامع کو فوراً اس بات کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت خوبصورت اور پراثر ادبی تکنیک ہے جو شاعر، ادیب اور عام لوگ سب ہی استعمال کرتے ہیں۔
ادبی متن میں، مشہور شاعر حافظ شیرازی کی یہ تشبیہ دیکھیے: "لعل لب تو خضر را آب حیات است”، یعنی "تیری لب کی سرخی، خضر کے لیے آبِ حیات ہے”۔ یہاں لب کو لعل یعنی قیمتی پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جو سامع کو محبوب کی خوبصورتی کا اندازہ فوراً دے دیتی ہے۔
روزمرہ گفتگو میں بھی تشبیہ کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے "وقت سونے کی طرح قیمتی ہے”، اس میں وقت کو سونے کے ساتھ ملا کر اس کی قدر و قیمت کو واضح کیا گیا ہے۔
تشبیہ کے ارکان: مشبہ اور مشبہ بہ
تشبیہ کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی ارکان پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس میں دو اہم ارکان ہوتے ہیں: مشبہ اور مشبہ بہ۔
مشبہ وہ چیز ہے جسے کسی اور چیز کے ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے، یعنی جس چیز کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر،”علی شیر کی طرح بہادر ہے” میں علی مشبہ ہے – وہ موضوع جس کی ہم بات کر رہے ہیں۔
دوسرا رکن، مشبہ بہ، وہ چیز ہے جسکے ساتھ مشبہ کو ملایا جاتا ہے۔ مشبہ کی طرح مشابہت پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اوپری مثال میں "شیر” مشبہ بہ ہے کیونکہ ہم علی کی بہادری کو شیر کے ساتھ ملاتے ہیں تاکہ اس کی بہادری کا بہتر اندازہ ہو سکے۔
یہاں چند صورتیں ہیں جہاں مشبہ اور مشبہ بہ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے:۔
. زاہد رات کی طرح تاریک خیالات رکھتا ہے” – زاہد مشبہ اور رات مشبہ بہ ہے۔ اس جملے میں زاہد کے خیالات کی تاریکی کو رات کے اندھیرے کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
ریحانہ چاند کی طرح روشن ہے – ریحانہ مشبہ اور چاند مشبہ بہ ہے۔ یہاں ریحانہ کی روشنائی کو چاند کی روشنی کے ساتھ مماثل کیا گیا ہے۔
جلانے کا رویہ آتش فشاں کی طرح شدید تھا – جلانے کا رویہ مشبہ اور آتش فشاں مشبہ بہ ہے۔ اس جملے میں جلانے کے رویہ کی شدت کو آتش فشاں کی شدت کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
ان مثالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا استعمال کسی چیز کی خاصیت کی وضاحت کرنے یا اس کے متعلق بہتر تصور دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس طرح، یہ ارکان زبان کی معنویت اور خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور بیان کو زیادہ واضح اور جذباتی بنا دیتے ہیں۔
أداة تشبیہ اور وجہ تشبیہ کی وضاحت کو بہتر سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان دونوں ارکان کا کیا کردار ہے اور ان کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے۔ أداة تشبیہ وہ الفاظ یا اسالیب ہیں جو تشبیہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ‘کی طرح’، ‘جیسے’، ‘گویا’، وغیرہ۔ یہ الفاظ مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان تعلق کو واضح کرتے ہیں۔
مثلاً، اگر کہا جائے "اس کا چہرہ چاند کی مانند ہے”، تو یہاں ‘چاند کی مانند’ أداة تشبیہ ہے۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ مشبہ (اس کا چہرہ) مشبہ بہ (چاند) سے مشابہت رکھتا ہے۔ أداة تشبیہ کی موجودگی کے بغیر، تشبیہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ دونوں اشیاء میں کیا اور کیوں مماثلت ہے۔
دوسرے اہم رکن، وجہ تشبیہ، کی وضاحت بھی لازمی ہے۔ وجہ تشبیہ وہ خاصیت یا خصوصیت ہے جس کی بنا پر مشبہ اور مشبہ بہ کی مشابہت قائم کی جاتی ہے۔ مثلاً، مذکورہ بالا مثال میں، ‘چاند کی مانند’ کہنے کا مطلب ہے کہ چہرے کی خوبصورتی چاند کی خوبصورتی کے برابر ہے۔ یہاں خوبصورتی وجہ تشبیہ ہے۔
ادیبوں اور شاعروں نے مختلف ادبی مثالوں کے ذریعے أداة تشبیہ اور وجہ تشبیہ کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ میر تقی میر کی ایک مشہور غزل کا مصرع، "تیرا جیسا کوئی کہاں، چاندنی رات جیسی بات کہاں”، میں ‘چاندنی رات’ أداة تشبیہ ہے اور اس کی چمک اور خوبصورتی وجہ تشبیہ۔
اسی طرح، غالب کے ایک شعر میں "آج شب کچھ جوشِ عشق کیسا تھا؟ چاند بھی افسردہ، دل بھی منتظر”، یہاں ‘چاند بھی افسردہ’ أداة تشبیہ ہے اور افسردگی وجہ تشبیہ کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔ اس طرح کی مثالیں ادبی تشبیہات کی خوبصورتی اور پیچیدگی کو اجاگر کرتی ہیں۔
لہذا أداة تشبیہ اور وجہ تشبیہ دونوں ادبی تشبیہ کے لازمی ارکان ہیں جو ادبی تخلیق میں مشابہت اور نفاست کا پہلو اجاگر کرتے ہیں۔