جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح

جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں ، جگر مرادآبادی کی مشہور غزل حوصلے، استقامت اور خودی کا درس دیتی ہے۔ اس غزل میں شاعر اپنے پختہ عزم اور غیر متزلزل حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کی سختیاں اور زمانے کے نشیب و فراز اسے مٹانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ غزل نہ صرف ایک فرد کی ہمت و جرأت کی علامت ہے بلکہ اجتماعی طور پر کسی بھی قوم یا نظریے کے استقلال اور ثابت قدمی کی عکاس بھی ہے۔ جگر مرادآبادی نے اس غزل میں عزم، خودداری اور حوصلے کو شاعرانہ رنگ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جو آج بھی سننے والوں کو حوصلہ اور امید دیتی ہے۔ اس آرٹیکل میں جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح  پیش کی جا رہی ہے۔

جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح
جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح

جگر مراد آبادی کی غزل ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں کی تشریح

شعر 1۔ 

  ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

       ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

مفہوم۔   زمانے میں یعنی دنیا میں  اتنی ہمت نہیں کہ وہ ہمیں ختم کر سکے۔ یہ دنیا ہماری وجہ سے قائم ہے ، ہم اس دنیا کی وجہ سے قائم نہیں ہیں۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر  خودداری، عزم، اور استقلال کی علامت ہے۔ شاعر اس میں اپنے مضبوط ارادے اور خودمختاری کو واضح کر رہا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ زمانے (دنیا) میں اتنی طاقت اور ہمت نہیں کہ وہ ہمیں مٹا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مشکلات، پریشانیاں یا کوئی بھی طاقت ہمیں ختم نہیں کر سکتی کیونکہ ہماری ہستی مضبوط ہے، اور ہم ہر چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں شاعر مزید وضاحت کرتا ہے کہ یہ زمانہ خود ہمارے وجود سے قائم ہے، ہم زمانے کی بدولت نہیں ہیں۔ یعنی ہم اپنی قابلیت، محنت، اور خودمختاری کی بنا پر زندہ ہیں، نہ کہ اس دنیا کی دی ہوئی سہولتوں یا حالات کے سہارے۔

یہ شعر ایک مثبت اور حوصلہ افزا پیغام دیتا ہے کہ اگر انسان خود پر یقین رکھے اور مضبوط ارادے کے ساتھ کھڑا رہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔ یہ شعر انسان کی خودداری، خود اعتمادی اور عزمِ مصمم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں اور خود پر یقین رکھتے ہیں، وہ کبھی حالات کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ زمانہ ان کی محنت اور استقلال سے ہی آگے بڑھتا ہے۔

یہ شعر ہمیں بتاتا ہے کہ اپنی طاقت اور صلاحیتوں پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اگر ہمارا عزم پختہ ہو اور ہم اپنی راہ پر ثابت قدم رہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مٹا نہیں سکتی۔ اصل کامیابی خودمختاری اور استقلال میں ہے، نہ کہ دوسروں پر انحصار کرنے میں۔

شعر 2۔  

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں

            توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

مفہوم۔   یہ غم اور دکھ بے کار اور بے فائدہ نہیں ہیں۔ اگر خدا کسی کو توفیق دے تو فرد اس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

تشریح۔  شاعر اس شعر میں غم اور الم کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ عام طور پر، لوگ غم اور دکھ کو بیکار اور بے فائدہ سمجھتے ہیں، لیکن شاعر کا نظریہ مختلف ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگر خدا کسی کو صبر اور سمجھ عطا کرے، تو غم بھی ایک بڑی نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ غم اور پریشانیاں انسان کو مضبوط بناتی ہیں اور اسے زندگی کے حقائق سے آگاہ کرتی ہیں۔ یہ دکھ اور مشکلات ہمیں صبر، حوصلہ اور ہمت سکھاتے ہیں، اور ہمیں اپنی کمزوریوں کو سمجھنے اور بہتر بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ شعر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر تکلیف کے پیچھے ایک حکمت ہوتی ہے، اور اگر ہم ان مشکلات کو ایک مثبت زاویے سے دیکھیں، تو ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو مزید نکھار سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر نے غم کو “نعمت” کہا ہے، کیونکہ یہ ہمیں زندگی کے اصل معنی سکھانے میں مدد دیتا ہے۔

اس شعر کا خلاصہ یہ ہے کہ دکھ اور غم کو بے کار یا بے فائدہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ ان سے سیکھنے اور اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر خدا ہمیں سمجھنے اور صبر کرنے کی توفیق دے، تو یہی غم ایک نعمت بن سکتا ہے۔

شعر 3۔ 

میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں   

           مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

مفہوم۔   مجھ پر ستم کرنے والے لوگوں کا شکریہ۔ میں ان سے گلہ نہیں کرتا، کیوں کہ انہوں نے مجھے حقیقت میں جگا دیا ۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی زبان پر ظالموں کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہے، کیونکہ ان کے ظلم نے اسے حقیقت کی دنیا سے روشناس کروا دیا ہے۔ عام طور پر، جب کوئی شخص کسی زیادتی یا ناانصافی کا شکار ہوتا ہے، تو وہ شکایت کرتا ہے اور بدلہ لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن یہاں شاعر کا رویہ مختلف ہے۔ وہ ستم کرنے والوں کا شکر گزار ہے، کیونکہ ان کی زیادتیوں نے اسے بیدار کر دیا اور زندگی کے اصل حقائق کو سمجھنے میں مدد دی۔ یہ شعر صبر، حوصلے اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ مشکلات اور ناانصافیاں ہمیں مضبوط بناتی ہیں۔ اگر ہم ہر تکلیف کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع سمجھیں، تو یہ ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں زندگی کی مشکلات اور دوسروں کی زیادتیوں سے مایوس یا بددل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں ایک سبق کے طور پر لینا چاہیے جو ہمیں مضبوط، خودمختار اور حقیقت پسند بنا سکے۔

شعر 4۔ 

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں 

         دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

مفہوم۔   اے خدا! میرے دکھ اور غم کو مزید بڑھا دے۔ ابھی میرا اس دکھ اور غم سے پیٹ نہیں بھرا۔ابھی تو میری آنکھ بھی گیلی نہیں ہوئی۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر ایک غیر معمولی دعا کر رہا ہے۔ عام طور پر، لوگ اللہ سے غم و پریشانیوں سے نجات مانگتے ہیں، مگر یہاں شاعر ایک منفرد انداز میں اپنے غم اور دکھ کی وسعت مانگ رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! میرے غموں میں مزید اضافہ کر دے، کیونکہ جو تکلیفیں میں نے اب تک سہی ہیں، وہ میرے لیے کافی نہیں ہیں۔ میں اب بھی اپنے درد کو پوری طرح محسوس نہیں کر پایا، حتیٰ کہ میری آنکھوں میں آنسو بھی نہیں آئے۔ شاعر کے یہ الفاظ صبر، برداشت اور حوصلے کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ شعر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ بعض اوقات زندگی کے سخت ترین لمحات ہمیں مزید مضبوط بنا دیتے ہیں۔ شاعر اس دعا کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ آزمائشوں سے گھبرانے کے بجائے انہیں مزید قبول کرنے کے لیے تیار ہے، کیونکہ یہی غم و درد اس کی شخصیت کو نکھارتے ہیں اور اسے حقیقت کی گہرائیوں تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔

یہ شعر حوصلے، صبر اور استقامت کا درس دیتا ہے۔ شاعر اللہ سے مشکلات سے بھاگنے کی دعا نہیں کرتا بلکہ ان کا سامنا کرنے کے لیے مزید حوصلہ اور برداشت مانگتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سچے شعور اور آگہی کے لیے درد کا سامنا کرنا ضروری ہے۔

شعر 5۔  

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً  

             تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

مفہوم۔   میں شکوہ کر کے تجھے چھیڑتا ہوں، لیکن در حقیقت ، تیرا مجھ پر ستم کرنا بھی میرے لیے ایک بہت بڑی عطا اور عنایت ہے۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر ایک نہایت عمیق اور فلسفیانہ نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ وہ شکوہ کرتا ہے، لیکن یہ محض ایک دل لگی یا چھیڑ ہے۔ درحقیقت، جو ستم اس پر ڈھایا جا رہا ہے، وہ بھی کسی نعمت یا عنایت سے کم نہیں ہے۔ یہ شعر صبر، شکر اور ایک بلند فکری طرزِ زندگی کی علامت ہے۔ عام طور پر، لوگ مشکلات پر شکوہ کرتے ہیں اور انہیں ناپسند کرتے ہیں، مگر یہاں شاعر ایک منفرد انداز میں ان مصائب کو بھی نعمت سمجھ رہا ہے۔ وہ کہنا چاہتا ہے کہ جو دکھ اور تکلیف اسے ملی ہے، وہ بھی دراصل کسی بڑی بھلائی یا آزمائش کا حصہ ہے۔ یہ نقطہ نظر صوفیانہ طرزِ فکر کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بندہ ہر حالت میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے، چاہے وہ خوشی ہو یا غم۔ شاعر کے مطابق، اگر آزمائشیں آ رہی ہیں، تو یہ بھی کسی بڑے مقصد یا روحانی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔

یہ شعر ہمیں صبر اور مثبت طرزِ فکر اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ شاعر ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی مشکلات اور آزمائشیں بھی دراصل اللہ کی طرف سے ایک خاص نعمت ہو سکتی ہیں، اگر ہم انہیں سمجھنے اور قبول کرنے کا حوصلہ رکھیں۔

شعر 6۔  

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد 

          سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

مفہوم۔   اب عشق ایسی حالت میں پہنچ چکا ہے جہاں صرف جستجو باقی رہ گئی ہے، یعنی وہ مسلسل تلاش میں ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نہ کسی کا سایہ ہے، نہ کسی کے قدموں کے نشانات۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر عشق کی ایک ایسی حالت کو بیان کر رہا ہے جو انتہائی بلند اور منفرد مقام پر پہنچ چکی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب عشق محض ایک کیفیت نہیں رہا، بلکہ یہ مسلسل تلاش اور جستجو میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ جستجو ایک ایسی سرزمین پر جاری ہے جہاں کوئی اور موجود نہیں، نہ کسی کا سایہ ہے اور نہ ہی کسی کے قدموں کے نشان۔ یہ شعر صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے، جہاں عشق صرف محبت تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک روحانی سفر بن جاتا ہے۔ جب انسان عشق کی بلند ترین منزل پر پہنچتا ہے، تو وہ تنہا رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ اس راہ کا مسافر ہوتا ہے جہاں عام لوگ نہیں پہنچ سکتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر چیز سے بے نیاز ہو کر صرف سچائی، حقیقت اور معشوق (اللہ یا محبوب) کی جستجو باقی رہ جاتی ہے۔ یہ شعر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سچا عشق راہنما کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ وہ خود راستہ بناتا ہے۔ اس راہ میں کوئی اور نہیں ہوتا، کیونکہ یہ سفر ہر شخص کے لیے الگ اور منفرد ہوتا ہے۔

یہ شعر عشق کی عظمت، اس کی جدوجہد اور اس کی انفرادیت کو بیان کرتا ہے۔ سچا عشق وہ ہے جو منزل کی تلاش میں ہر رکاوٹ سے گزر جائے، چاہے راستہ کتنا ہی سنسان کیوں نہ ہو۔

شعر 7۔ 

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں

             تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

مفہوم۔   زندگی کے ظلم و ستم میں ایک عجیب لذت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ اگر تیرا کرم بھی ان سختیوں میں شامل نہ ہو تو یہ تکلیف برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر ایک گہری حقیقت کو بیان کر رہا ہے۔ وہ حیران ہوتا ہے کہ زندگی کے ظلم و ستم میں بھی ایک انوکھی لذت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ عام طور پر، لوگ مشکلات اور پریشانیوں کو ناپسند کرتے ہیں، لیکن شاعر کہتا ہے کہ ان تکالیف میں بھی ایک خاص مزہ چھپا ہے۔ اس کی وضاحت اگلے مصرعے میں ملتی ہے، جہاں شاعر یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ اگر ان سختیوں میں اللہ کا کرم شامل نہ ہو، تو یہ سب کچھ برداشت کرنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ یعنی، درحقیقت، جو صبر اور ہمت ہمیں مشکلات میں قائم رکھتے ہیں، وہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ اللہ کی رحمت ہی وہ طاقت ہے جو آزمائشوں کو جھیلنے کا حوصلہ دیتی ہے اور انسان کو مزید مضبوط بناتی ہے۔ یہ شعر دراصل صبر، توکل اور اللہ کی رحمت پر ایمان کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ زندگی کی مشکلات بے معنی نہیں ہیں، بلکہ ان میں ایک خاص مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگر اللہ کا فضل ساتھ ہو، تو انسان بڑے سے بڑا دکھ بھی ہمت اور استقامت کے ساتھ جھیل سکتا ہے۔
یہ شعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مشکلات میں بھی اللہ کی رحمت شامل ہوتی ہے، اور اگر ہم صبر اور حوصلے کے ساتھ ان کا سامنا کریں، تو وہی تکلیفیں ہماری روحانی اور عملی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

شعر 8۔ 

مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز 

           اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

مفہوم۔   جگرؔ کی موت پر کیوں رو رہے ہو، مانا یہ ایک سانحہ ہے لیکن اتنا اہم نہیں کہ تم روتے رہو۔

تشریح۔  اس شعر میں شاعر ایک منفرد اور غیر روایتی انداز میں موت جیسے گہرے موضوع پر بات کر رہا ہے۔ شاعر کسی کے غم میں آنسو بہانے کے عام انسانی جذبے کو ایک نئے زاویے سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ جگرؔ کی موت پر اتنا زیادہ رونا ضروری نہیں، کیونکہ یہ کوئی بہت غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ شعر زندگی اور موت کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر انسان کو اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ اگرچہ کسی کی جدائی تکلیف دہ ہو سکتی ہے، مگر یہ دنیا کا اصول ہے کہ جو آیا ہے، اسے جانا ہی ہے۔ اس لیے شاعر ایک فلسفیانہ انداز میں صبر اور حقیقت پسندی کا درس دیتا ہے کہ موت پر زیادہ افسوس کرنا بے فائدہ ہے، کیونکہ یہ قدرت کا قانون ہے۔ یہ شعر ایک گہرے روحانی اور فلسفیانہ نقطہ نظر کو بھی بیان کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز اتنی اہم نہیں کہ اس پر بے حد افسوس کیا جائے۔ زندگی چلتی رہتی ہے، اور انسان کو جذبات کے بجائے حقیقت کی بنیاد پر سوچنا چاہیے۔

یہ شعر ہمیں صبر، حقیقت پسندی اور زندگی کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں موت جیسے غمناک واقعات کو قدرتی عمل سمجھ کر قبول کرنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، کیونکہ زندگی کسی کے رکنے سے نہیں رکتی۔


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading