حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح
یہ حمد معروف صوفی شاعر حفیظ تائب کی تخلیق ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، جمال، کرم، اور محبوبیت کو کائنات کے افق، چمن، روشنی، پہاڑ، صدف، ستارے اور صبا جیسے مظاہرِ فطرت کے آئینے میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر شعر ایک سوالیہ انداز میں ہے، جو قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ کائنات کے ہر مظہر میں آخر کس کی جلوہ گری ہے؟ یہ حمد معروف صوفی شاعر حفیظ تائب کی ایک روح پرور تخلیق ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، قدرت، جمال اور محبوبیت کو انتہائی دل نشین اور فکری انداز میں بیان کرتی ہے۔ پوری حمد میں کائنات کے مختلف مظاہر، افق، چمن، صدف، پہاڑ، ستارے، صبا—کو بطور علامت استعمال کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر شے اللہ کی عظمت و جمال کی گواہ ہے۔ شاعر سوالیہ انداز میں قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ یہ سب نظام، یہ جمال، یہ روشنی، یہ کرم، آخر کس کی نشانی ہے؟ جواب ظاہر ہے—صرف اور صرف خالقِ کائنات، اللہ تعالیٰ کی۔ آخری اشعار میں شاعر ذاتی واردات کو شامل کر کے عشقِ الٰہی کی شدت اور روحانی تڑپ کا اظہار کرتا ہے، جو اس حمد کو محض نعتیہ تخلیق نہیں، بلکہ صوفیانہ وجدانی کلام بنا دیتا ہے۔ اس آرٹیکل میں حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔
حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح
شعر 1
کس کا نظام راہ نما ہے افق افق۔ کس کا دوام گونج رہا ہے افق افق
مفہوم: کائنات کے ہر افق پر جو نظام قائم ہے، وہ کس کا ہے؟ اور جو دوام یعنی بقا و ہمیشگی ہر جانب سنائی دیتی ہے، وہ کس کی صفت ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کے اس شعر میں شاعر حفیظ تائب نے اللہ تعالیٰ کے نظامِ کائنات اور اس کی ابدی و سرمدی صفات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ “نظام راہ نما” کا مطلب ہے کہ جو کائنات کا نظام ہے، وہ نہ صرف مربوط اور منظم ہے بلکہ انسان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ افق افق پر اس نظام کی موجودگی، اللہ کے کامل علم، حکمت، اور قدرت کی دلیل ہے۔ اسی طرح “دوام” کا مطلب ہے ایسی صفت جو ختم نہ ہو، اور اللہ ہی کی ذات ہے جو ابدالآباد تک باقی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ افق افق یعنی ہر سمت سے، ہر گوشے سے اللہ کی حکمرانی اور اس کی بقا کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ گویا سارا نظامِ کائنات اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ سب کسی ابدی اور لازوال ہستی کا کارنامہ ہے۔
شعر 2
شانِ عیاں کس کی عیاں ہے جبل جبل۔ رنگِ جمال کس کا جما ہے افق افق
مفہوم: پہاڑ پہاڑ میں جو عظمت ظاہر ہے، وہ کس کی شان ہے؟ اور افق پر جو خوبصورتی پھیلی ہے، وہ کس کے جمال کا عکس ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کے اس شعر میں اللہ تعالیٰ کی شانِ جلال اور جمال کو مظاہرِ قدرت میں ظاہر کرنے کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ “شانِ عیاں” کا مطلب ہے وہ عظمت اور بزرگی جو نظر آتی ہے، اور “جبل جبل” یعنی پہاڑوں میں، جو اللہ کی قدرت کا نشان ہیں۔ ان کی ہیبت، ان کی بلندی، اور ان کی ثبات، سب کچھ اللہ کی جلالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری طرف، “رنگِ جمال” یعنی حسن و جمال کی جھلک، جو افق پر سورج کے طلوع و غروب میں، بادلوں کی رنگینی میں، اور قدرت کے حسین مناظر میں دیکھی جاتی ہے، وہ بھی اللہ ہی کے حسن کا مظہر ہے۔ شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ اللہ نہ صرف جلال والا ہے بلکہ جمال والا بھی ہے۔ کائنات کی ہر چیز، خواہ وہ ہیبت ناک ہو یا حسین، دراصل اللہ کی کسی نہ کسی صفت کا پرتو ہے۔
(اس آرٹیکل میں حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔)
شعر 3
کس کے لئے نجوم بکف ہے روش روش۔ بابِ شہود کس کا کھُلا ہے افق افق
مفہوم: ستارے ستارے روشنی لیے کس کے حکم سے ہر راستے پر ہیں؟ اور مشاہدے کا دروازہ کس نے افق پر کھولا ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کے اس شعر میں اللہ کی طرف سے ہدایت اور مشاہدۂ حق کی طرف اشارہ ہے۔ “نجوم بکف” یعنی ہاتھ میں ستارے لیے ہوئے، یہ ستارے نہ صرف آسمان کی زینت ہیں بلکہ راہنمائی کا ذریعہ بھی ہیں، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ “روش روش” یعنی ہر سمت، ہر راستے پر اللہ نے اپنی نشانیاں رکھی ہیں تاکہ انسان گمراہ نہ ہو۔ “بابِ شہود” کا مطلب ہے وہ دروازہ جہاں سے مشاہدۂ حق ممکن ہو، یعنی انسان حقیقت تک پہنچ سکے۔ افق پر جو مناظر، رنگ، روشنی اور نظم ہے، وہ دراصل اللہ کے وجود کا گواہ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک اعلیٰ، علیم اور حکیم ذات کی تخلیق ہے، جو اپنے بندوں کے لیے نشانیوں کا در کھولے ہوئے ہے تاکہ وہ اسے پہچان سکیں۔
شعر 4
کس کے لئے سرودِ صبا ہے چمن چمن۔ کس کے لئے نمودِ ضیا ہے افق افق
مفہوم: ہر باغ میں جو خوشبو دار ہوا چل رہی ہے، وہ کس کے لیے نغمہ سرا ہے؟ اور جو روشنی ہر افق پر پھیل رہی ہے، وہ کس کے جمال کا ظہور ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کے اس شعر میں شاعر نے فطرت کے دو حسین مظاہر—نسیمِ صبا اور نور و ضیا—کو اللہ کی رحمت اور حسن سے جوڑا ہے۔ “سرودِ صبا” کا مطلب ہے صبح کی ہلکی ہوا کا نغمہ، جو پھولوں سے خوشبو لیتے ہوئے چمن چمن سفر کرتی ہے۔ یہ ہوائیں گویا اللہ کی رحمت کا گیت گاتی ہیں۔ ہر باغ میں یہ اللہ کی نعمتوں اور حسنِ تخلیق کا اعلان کرتی ہیں۔ دوسری طرف “نمودِ ضیا” یعنی روشنی کا ظہور، سورج کی کرنوں، صبح کے اجالے، اور دن کے آغاز میں افق پر نظر آنے والی روشنی بھی اللہ ہی کے نور کا مظہر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ صبا کا نغمہ ہو یا روشنی کا ظہور—یہ سب کسی ایک عظیم اور حکیم ہستی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جو کائنات کی ترتیب دینے والی ذات ہے۔ یہ منظر صرف خوبصورتی کے لیے نہیں، بلکہ خالق کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔
(اس آرٹیکل میں حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔)
شعر 5
مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف۔ مرقوم کس کا حرفِ وفا ہے افق افق
مفہوم: ہر صدف (سیپ) میں جو چھپی ہوئی کرم کی موج ہے، وہ کس کا احسان ہے؟ اور افق پر جو وفا کے الفاظ تحریر ہیں، وہ کس کے قلم کا کمال ہیں؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ یہاں شاعر حفیظ تائب اللہ کی رحمت و کرم اور وفا کا ذکر کر رہا ہے، جو کائنات میں نہاں بھی ہے اور ظاہر بھی۔ “مکتوم موجِ کرم” یعنی وہ مہربانی اور فیض جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی، مگر صدف صدف میں چھپی ہے—یہ اشارہ ہے سمندر کے سیپوں میں چھپے موتیوں کی طرف، جو اللہ کے رزق اور فیاضی کا نشان ہیں۔ اللہ نے ہر شے میں اپنی عنایت چھپا رکھی ہے، حتیٰ کہ ایک عام سی صدف میں بھی۔ “مرقوم حرفِ وفا” سے مراد ہے وہ وفا جو قدرت کے ہر منظر میں نقش کی گئی ہے۔ اللہ کی وفا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے کیے وعدوں کو نبھاتا ہے، چاہے وہ رزق کا ہو، ہدایت کا، یا معافی کا۔ افق پر پھیلی قدرت کی ترتیب، روشنی، موسم—یہ سب اللہ کی وفاداری کا اعلان ہیں۔ شاعر اس شعر میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ اللہ کا کرم نہ صرف ہر ذرے میں پوشیدہ ہے، بلکہ اس کی وفا ہر منظر میں تحریر کی صورت موجود ہے، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
شعر 6
کس کی طلب میں اہلِ محبت ہیں داغ داغ۔ کس کی ادا سے حشر بپا ہے افق افق
مفہوم: محبت کرنے والے کس کی تلاش میں جگر جگر زخموں سے بھرے ہوئے ہیں؟ اور کس کی ایک ادا نے افق افق قیامت کا سا منظر بپا کر رکھا ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کا یہ شعر اللہ کی محبوبیت اور تجلّی کا بیان ہے۔ “اہلِ محبت” یعنی وہ لوگ جو اللہ سے سچی محبت کرتے ہیں، اس کی طلب میں “داغ داغ” ہیں—یہ اشارہ ہے عشقِ حقیقی کی قربانیوں، درد، اور سوز کی طرف۔ اللہ کی محبت میں جو سوز، گریہ، اور جگر سوزی ہے، وہ انہیں ہر لمحہ بے چین رکھتی ہے۔ یہ کیفیت صوفیاء کے ہاں عام بیان کی جاتی ہے کہ محبتِ الٰہی میں دل زخموں سے بھر جاتے ہیں۔ دوسرے مصرع میں “ادا” سے مراد اللہ کی کوئی جھلک، تجلی، یا انکشاف ہے—جس سے افق پر گویا “حشر” بپا ہو جاتا ہے۔ یعنی ایسا منظر یا جلوہ جس سے انسان کی روح لرز جاتی ہے، اور وہ وجود کی گہرائی میں خدا کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے اللہ کی محبت کی شدت اور اس کے ایک اشارے سے پوری کائنات پر چھا جانے والے تاثیراتی اثرات کو بیان کیا ہے۔
(اس آرٹیکل میں حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔)
شعر 7
سوزاں ہے کس کی یاد میں تائبؔ نفس نفس۔ فرقت میں کسی کی، شعلہ نوا ہے افق افق
مفہوم: تائبؔ کا ہر سانس کس کی یاد میں جل رہا ہے؟ اور کس کی جدائی نے افق کو شعلہ نوا بنا دیا ہے؟
تشریح: حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق خدا کی قدرت طاقت قوت اور اختیار کو بیان کرتی ہوئی خوب صورت حمد ہے۔ حمد کا یہ آخری شعر سب اشعار کا نقطۂ عروج ہے، جو ذاتی جذبات کو بیان کرتا ہے۔ یہاں حفیظ تائبؔ خود کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ کی یاد میں اپنی داخلی کیفیت کو آشکار کرتے ہیں۔ “سوزاں ہے نفس نفس” یعنی ہر سانس جل رہا ہے، یہ علامتی زبان ہے، جو شدید عشق و محبت، اور فراق میں تڑپنے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ زبان صوفی ادب کی خاص پہچان ہے، جہاں عاشق خدا کی یاد میں ہر لمحہ بے چین رہتا ہے۔ “فرقت میں کسی کی شعلہ نوا ہے افق افق”—یہاں “شعلہ نوا” یعنی آگ اگلتی صدا، جو جدائی کے کرب کو ظاہر کرتی ہے۔ ہر افق پر شاعر کو ایک تڑپ، ایک چیخ، ایک دکھ سنائی دیتا ہے—جو اللہ کی دوری یا روحانی فراق کی شدت کا مظہر ہے۔ شاعر کی روح اللہ کے وصال کی پیاسی ہے، اور اس جدائی نے پورے وجود کو بے قرار کر رکھا ہے۔
خلاصہ
یہ پوری حمد توحید، جمالِ الٰہی، شانِ ربوبیت، اور عشقِ حقیقی کی بہترین نمائندہ ہے۔ ہر شعر اللہ کی کسی نہ کسی صفت کو کائنات کے مختلف مظاہر سے جوڑ کر بیان کرتا ہے، اور آخر میں شاعر اپنی ذاتی وارداتِ عشق کو شامل کرتا ہے، جو پورے کلام کو روحانی بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔
(اس آرٹیکل میں حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from Ilmu علمو
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.