حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح

حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح

حفیظ جالندھری کی یہ حمد بلاشبہ نعتیہ و حمدیہ ادب میں ایک درخشندہ مثال ہے جس میں خالقِ کائنات کی قدرت، حکمت اور جمال کو شعری قالب میں نہایت جامع اور حسین انداز سے سمو دیا گیا ہے۔ نظم کا ہر شعر ایک عقیدت مند دل کی گواہی ہے جو خدائے بزرگ و برتر کی بےپایاں صفات کا ذکر عقیدت و محبت کے ساتھ کرتا ہے۔ شاعر نے لفظ “کن” سے کائنات کی تخلیق کے تصور کو لے کر کائناتی نظام کی گہرائیوں میں جھانکا ہے اور اس خالقِ حقیقی کی عظمت کو آسمانوں، زمینوں، مظاہرِ فطرت، نعمتوں، روشنی و تاریکی، دل و ارادے، اور تمام مخلوقات کے ذریعے آشکار کیا ہے۔ یہ اشعار نہ صرف فکری اعتبار سے مضبوط ہیں بلکہ ان میں ایک روحانی حلاوت بھی ہے جو قاری کے دل کو متاثر کرتی ہے۔ نظم کا اختتامی شعر بطور خاص اہم ہے، جہاں شاعر انسان کی فطرتِ اسلامی اور حضور سرورِ کائنات ﷺ کے ذکر سے حمد کو نعت کے قریب تر لے آتا ہے، اور یوں یہ نظم بندگی، عقیدت اور عرفان کا حسین امتزاج بن جاتی ہے۔

شعر 1

اسی نے ایک حرفِ کن سے پیدا کر دیا عالم، کشاکش کی صدائے ہاؤ ہو سے بھر دیا عالم۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے مطلع میں شاعر حفیظ جالندھری کائنات کے نظام کے قیام اور اللہ کے ہر شے کے خالق ہونے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اس پوری کائنات کو لفظ کُن سے پیدا کیا، اور پھر اس کائنات کو جانداروں اور بے جان مختلف اشیا اور ان کی آوازوں سے بھر دیا، جو اللہ کی تسبیح کر رہی ہیں۔ اس شعر میں “حرفِ کن” (یعنی “کن فیکون”) قرآن کی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف “ہو جا” کہہ کر کائنات کو وجود میں لایا۔ شاعر کہتا ہے کہ ایک مختصر حکم سے پورا نظامِ ہستی قائم ہو گیا۔ “کشاکش کی صدائے ہاؤ ہو” سے مراد زندگی کی حرکت، شور، ارتقاء اور جدوجہد ہے، جو اللہ کے حکم سے عالم میں جاری ہے۔ یہ شعر تخلیق کے آغاز اور نظامِ ہستی کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے۔

شعر 2

 نظامِ آسمانی ہے اسی کی حکمرانی سے، بہارِ جاودانی ہے اسی کی حکمرانی سے۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے  اس شعر میں حفیظ جالندھری اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو آسمانوں کے نظام سے عیاں کر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ہی آسمانوں اور دنیاوں یعنی کل کائنات اور دونوں جہانوں کا نظام چل رہا ہے۔ سیاروں کی گردش، رات دن کی آمد و رفت سب اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ “بہارِ جاودانی” سے مراد دائمی حسن و تازگی ہے جو قدرت کے حسن میں نظر آتی ہے۔ شاعر بتاتا ہے کہ ہر نظم و ترتیب، ہر جمال اور توازن اللہ کی حکمت اور حکمرانی کا ثبوت ہے۔
(اس آرٹیکل میں حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔

شعر 3

زمیں پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے، بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے  اس شعر میں شاعر حفیظ جالندھری اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین پر پھیلی ہر چیز، پہاڑ، دریا، درخت، فصلیں، اللہ ہی کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ اللہ نے زمیں کو اپنی عطاؤں سے بھر دیا اور اللہ نے ہی ہمارے دستر خوان مختلف انواع کی نعمتوں سے بھرے ہیں۔ “دسترخوانِ نعمت” سے مراد وہ بے شمار رزق اور آسائشیں ہیں جو انسان کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ شاعر اللہ کو “داتا” کہہ کر اس کے عطاکرنے والے وصف کو سراہتا ہے۔ اس شعر میں شکر گزاری اور قدرت کی قدر دانی جھلکتی ہے۔

شعر 4

 یہ سرد و گرم، خشک و تر، اُجالا اور تاریکی، نظر آتی ہے سب میں شان اسی کی ذاتِ باری کی۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے  اس شعر میں حفیظ جالندھری خدا کی ذات کو اس کی آیتوں اور نشانیوں کے ذریعے تلاش کرنے کو بیان کر رہے ہیں۔ شاعر بتاتے ہیں کہ فطرت کے متضاد پہلو،گرمی و سردی، نمی و خشکی، روشنی و تاریکی، سب میں اللہ کی کاریگری نظر آتی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف قدرت کے توازن کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ ہر شے میں رب کی شان پوشیدہ ہے۔ یہ شعر توحیدِ الٰہی کے ہمہ گیر مظاہر کو بیان کرتا ہے۔
(اس آرٹیکل میں حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔)

شعر 5

وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق، نباتات و جمادات اور حیوانات کا خالق۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے اس شعر میں اللہ کے ہر شے کے خالق و مالک ہونے کو بیان کر رہے ہین۔ یہاں شاعر اللہ تعالیٰ کی تخلیقی قوت کا احاطہ کرتے ہیں ۔ کائنات کی ہر چیز، چاہے وہ زندہ ہو یا بے جان، سب اسی کی پیدا کردہ ہے۔ “نباتات” (پودے)، “جمادات” (پتھر و دیگر بے جان اشیاء) اور “حیوانات” (جانور) سب اللہ کی تخلیق ہیں۔ یہ شعر انسان کو عاجزی سکھاتا ہے کہ وہ جس دنیا میں رہتا ہے، وہ سراسر خالقِ کائنات کی عطا ہے۔

شعر 6

 وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا، وہی خالق ہمارا اور ہمارے باپ دادوں کا۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے اس شعر میں حفیظ جالندھری دل کے رازوں کو جاننے کا بیان کر رہے ہیں۔   یہ شعر انسان کے باطن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اللہ صرف جسموں کا نہیں، بلکہ دلوں اور نیتوں کا بھی خالق ہے۔ یعنی وہی ہمیں نیک ارادے کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ نیز وہی خالق نسل در نسل ہمارا رب ہے، ہماری پوری انسانی تاریخ اسی کی تخلیق کا تسلسل ہے۔ یہ بندہ اور رب کے دیرینہ تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
(اس آرٹیکل میں حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔)

شعر 7

 بشر کو فطرتِ اسلام پر پیدا کیا جس نے، محمد مصطفی کے نام پر شیدا کیا جس نے۔

تشریح:     حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کے  اس شعر میں شاعر قرآن کی اس تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہر انسان فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر خیر اور توحید کے رجحان پر پیدا کیا۔ مزید یہ کہ اُسی رب نے انسانوں کے دلوں کو نبی اکرم ﷺ کی محبت سے بھر دیا۔ “شیدا” کا مطلب ہے عاشق، یعنی محبتِ مصطفی ﷺ بھی اسی خالق کی عطا ہے۔ یہ شعر اللہ کی نعمتِ رسالت اور عشقِ مصطفی ﷺ کو خراجِ عقیدت ہے۔

یہ نظم نہ صرف ربِّ کائنات کی صناعی اور وحدانیت کا نغمہ ہے بلکہ ایک مؤمن دل کی گواہی بھی ہے جو اپنے خالق کے جلوؤں کو کائنات کی ہر شے میں دیکھتا ہے۔ حفیظ جالندھری نے سادہ اور پراثر زبان میں عظیم ترین حقیقتوں کو بیان کیا ہے، اور ہر شعر میں معرفت، شکرگزاری اور عشقِ الٰہی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یہ حمد قاری کے دل میں ایمان کی روشنی جگاتی ہے اور اسے یاد دلاتی ہے کہ ہر نعمت، ہر قدرت، اور ہر ہدایت اُسی ربِ ذوالجلال کی عطا ہے، جس نے محمدِ مصطفی ﷺ کے نام سے انسانیت کو روشنی بخشی۔ یوں یہ نظم نہ صرف شعری خوبیوں کا نمونہ ہے بلکہ ایک روحانی تجربہ بھی ہے جو بندے کو اس کے رب سے جوڑتی ہے۔ (اس آرٹیکل میں حمد اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم کی تشریح پیش کی گئی ہے۔


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading