ردیف کی تعریف
شعری صنف میں "ردیف” ایک ایسی تکنیک ہے جس کا استعمال شاعر اپنے کلام کی جمالیات اور مخصوص صوتی اثریت بڑھانے کے لیے کرتا ہے۔ بنیادی طور پر، ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو ہر مصرعے کے آخر میں مرکوز رہتا ہے، اور اسے دوسرے مصرعوں کی آخری الفاظ کے ساتھ ہم آہنگی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ردیف کی لغوی تعریف میں "ردیف” عربی زبان کے لفظ "ردد” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "پیچھے پیچھے” یا "دوہرانا”۔
اصطلاحی طور پر، ردیف شاعری میں مسلسل استعمال ہونے والے الفاظ کا ایک سلسلہ ہے جو ہر شعر کے آخر میں مقرر رہتا ہے، اور اس کی مدد سے شاعری میں ایک تسلسل اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ شعر اور غزل دونوں میں ردیف کا استعمال بے حد اہم ہے کیونکہ یہ نہ صرف اشعار کو خوبصورتی بخشتا ہے بلکہ ان کی معنویت اور صوتی اثرات کو بھی بڑھاتا ہے۔
ردیف کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، جیساکہ ایک لفظی ردیف، جو کہ صرف ایک لفظ پر مشتمل ہوتی ہے؛ جبکہ مرکب ردیف، جو دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ردیف کا استعمال ایک پیچیدہ فن ہے جو شاعر کے ادبی ہنر کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف موسیقی اور تال کی تشکیل میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ نظم یا غزل کے مرکزی مضمون کو بھی مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔
شاعری میں ردیف کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے شاعروں نے اپنے کلام میں اس کا مستعمل انداز میں استعمال کیا ہے۔ میر تقی میر، غالب، اور اقبال جیسے شاعروں نے اپنی شاعری میں ردیف کو نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے، جو ان کی فنکاری کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کے ذریعے قاری کو شعر میں ایک تسلسل اور خوش آہنگی محسوس ہوتی ہے جو شاعری کی روح کو بلند کرتی ہے۔
ردیف کی تاریخی اہمیت
ردیف، فارسی اور اردو شاعری کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے اور اس کی تاریخی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ردیف کی ابتداء عام طور پر فارسی شاعری سے منسوب کی جاتی ہے جہاں قدیم فارسی شعرا وسیع پیمانے پر ردیف کا استعمال کرتے تھے۔ فارسی ادب میں، ردیف کا ابتدائی استعمال نعت، غزل اور قصیدہ میں نظر آتا ہے۔ اردو شاعری میں ردیف کا استعمال فارسی ادب کے زیر اثر شروع ہوا اور بعد میں اس نے ایک مخصوص مقام حاصل کیا۔
ردیف کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہمیں قدیم فارسی شعرا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ فردوسی، جو "شاہنامہ” کے عظیم فارسی مصنف ہیں، ان کی شاعری میں ردیف کی مثالیں اکثر ملتی ہیں۔ اسی طرح، حافظ شیرازی اور خیام نے بھی اپنی شاعری میں ردیف کے مختلف اسالیب کا استعمال کیا ہے۔ انغمسار ابتدا میں ردیف کی سادگی اور تکرار کا بڑا اثر تھا، جس نے قاری کو ایک مخصوص فلسفیانہ یا جمالیاتی پیغام ہر بار ایک نئے انداز میں پیش کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ، اردو شعراء نے بھی ردیف کو بطور ادبی عنصر اپنایا اور استعمال کیا۔ میر تقی میر اور غالب، اردو شاعری کے دو بڑے نام، اپنی غزلوں میں ردیف کو ایک نفس ظریفیت سے پیش کرتے ہیں۔ غالب کی معروف غزل "دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت” میں ردیف ‘ہی’ کا استعمال انتہائی دلکش ہے، جس نے غزل کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔
ردیف کے استعمال میں وقت کے ساتھ مختلف تبدیلیاں آتی رہیں۔ ابتدا میں ردیف صرف صوتی جاذبیت پیدا کرنے کا ذریعہ تھا، مگر بعد میں اسے موضوعی اعتبار سے بھی اہمیت دی جانے لگی۔ ردیف کے ساختی اور فنی پہلو بھی وقت کے ساتھ ارتقاء پاتے گئے اور مختلف شعرا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ردیف کو نئے انداز میں استعمال کیا۔
ردیف کی مختلف اقسام
ردیف اردو شاعری کا ایک بنیادی عنصر ہے جس کا مقصد شعری بیان کو مضبوط بنانا اور طرز کو خوبصورت بنانا ہوتا ہے۔ ردیف کی بنیادی طور پر دو اقسام ہوتی ہیں: مفرد ردیف اور مرکب ردیف۔ مفرد ردیف میں ایک یا دو الفاظ پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ میر تقی میر کے ایک مشہور شعر میں:
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
یہاں "جانے ہے” مفرد ردیف کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔
دوسری جانب، مرکب ردیف میں ایک جملہ جیسی ساخت ہوتی ہے جو کہ شعر کے پایان میں تکرار ہوتی ہے۔ جیسے کہ غالب کے اس مشہور شعر میں:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہاں "کیوں” مرکب ردیف کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔
اردو شاعری میں مختلف اصناف جیسے کہ غزل، قصیدہ، مرثیہ، اور رباعی میں ردیف کا استعمال مختلف ہوتا ہے۔ غزل میں ردیف کا استعمال عموماً زیادہ ہوتا ہے اور ہر شعر کے آخر میں ردیف کا تکرار ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ قصیدہ اور مرثیہ جیسے اصناف میں ردیف کا استعمال زیادہ جامع اور وسیع ہوتا ہے۔
ردیف کی یہ مختلف اقسام نہ صرف شعری طرز و اسلوب کو بامعنی بناتی ہیں بلکہ قارئین کو ایک مکمل اور خوبصورت تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ مختلف مشہور شاعروں کے اشعار میں متعدد ردیفوں کا استعمال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ردیف اردو شاعری میں کیوں اتنی اہمیت رکھتی ہے۔
شاعری میں ردیف کا عملی استعمال
شاعری میں ردیف ایک فنکارانہ عنصر ہے جو غزل یا نظم کی خوبصورتی اور تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔ ردیف کی موجودگی شاعری میں روانی اور موسیقیت پیدا کرتی ہے، جو کہ قاری اور سامع دونوں کے لیے خوشگوار تاثر چھوڑتی ہے۔ اس کی فنی مہارت یہ ہے کہ شاعر ایک ہی لفظ یا عبارت کو مصرعے کے آخر میں باقاعدگی سے دہراتا ہے، جو نہ صرف موسیقی پارہ کا کام کرتی ہے بلکہ شعر کو یادگار اور انوکھا بھی بناتی ہے۔
بعض مشہور غزلوں میں ردیف کا استعمال ہم دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، میر تقی میر کا ایک شعر ہے:
"پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی”
اس شعر میں "پہلے” اور "اب” کی فراغ ردیف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو کہ شاعری میں وقت کے بدلنے کے اثرات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔
اسی طرح غالب کا یہ مشہور شعر:
"دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں”
یہاں "کیوں” ردیف ہے جو کہ دونوں مصرعوں کے آخر میں آئی ہے، اس سے ایک طرح کی موسیقیت اور سوالیہ انداز پیدا ہوتا ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔
ردیف کا استعمال صرف غزلوں تک محدود نہیں بلکہ نظمیہ شاعری میں بھی نہایت اہم ہے۔ علامہ اقبال کی نظم "بانگ درا” میں:
"ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”
یہاں "پیدا” بطور ردیف کا استعمال ہوا ہے، جو نظم کی توسیع کرتی ہے اور بار بار اسی میں بے نوری کے تاریخی عمل کو ظاہر کرتی ہے۔
اس طرح، ردیف کا استعمال شاعری میں نہایت اہم اور ضروری عنصر ہے، جو فنکارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ تخلیقی پہلوؤں کو بھی ابھارنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ معروف شاعروں کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ ردیف کی باریکی اور نزاکت کو سمجھنا اور برتنا شاعر کے فنی مہارت کا حصہ ہوتا ہے۔