تابش دہلوی کی غزل: تعارف، تشریح اور سوالات کے جوابات
اردو شاعری کی عظیم روایت میں تابش دہلوی کا نام ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی غزلوں میں جذبوں کی گہرائی، فلسفیانہ رنگ اور شاعرانہ فنیات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ مضمون ان کی مشہور غزل کی مکمل تشریح، شاعر کا تعارف، اور متعلقہ سوالات کے جوابات پیش کرتا ہے تاکہ طلباء اس بہترین ادبی تخلیق سے مستفید ہو سکیں۔
تعارفِ غزل
یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام تابش دہلوی ہے جو کتاب "نیمروز" سے ماخوذ کی گئی ہے۔
تعارفِ شاعر
تابش دہلوی کا اصل نام مسعود الحسن تھا اور وہ ۹ نومبر ۱۹۱۳ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دور میں انہوں نے محکمہ ڈاک میں ملازمت کی، بعد ازاں ۱۹۳۹ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ تابش دہلوی نے ایسے دور میں اپنی شاعری کے ذریعے منفرد مقام بنایا جب فراق گورکھپوری، یگانہ چنگیزی، اصغر گونڈوی اور جگر مرادآبادی جیسے عظیم شاعر اپنی اپنی غزلوں سے شہرت حاصل کر رہے تھے۔
ان کے مشہور شعری مجموعوں میں "نیم روز"، "چراغِ سحر"، "غبارِ انجم"، "تقدیس" اور "دھوپ چھاؤں" شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں "نشانِ پاکستان" سے نوازا۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۰۴ء کو ان کا انتقال ہوا۔
غزل کے اشعار اور تشریح
سکوں درکار ہے لیکن سکوں حاصل نہیں ہوتا ذرا جو دل کو ٹھہرا دے وہ دردِ دل نہیں ہوتا |
تشریح:
شاعر کہتا ہے کہ انسان کو سکون کی شدید طلب ہے، مگر وہ اسے حاصل نہیں ہو پاتا۔ اگر کوئی ایسی چیز ہو جو دل کو پرسکون کر دے، تو ایسا نہیں ہوتا کیونکہ انسان کے دل میں "دردِ دل" یعنی انسانیت کی خدمت کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔ شاعر کے نزدیک یہی دردِ دل (ہمدردی و خدمت) ہے جو اصل سکون بخش سکتا ہے۔
کبھی ہر جلوۂ صد رنگ حاصل تھا نگاہوں کو اب اشکِ خوں بھی چشمِ شوق کو حاصل نہیں ہوتا |
تشریح:
شاعر کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب نگاہوں کو ہر طرح کے حسین مناظر اور جلوے میسر تھے۔ اب وہ خوبصورتیاں ختم ہو چکی ہیں، زندگی میں افسردگی چھا گئی ہے۔ روتے روتے اتنا رولا ہے کہ آنسو بھی کم ہو گئے ہیں، مگر دل کی بے چینی ختم نہیں ہوتی۔
ہر اک کارِ تمنا پر یہ مجبوری، یہ مختاری مجھے آساں نہیں ہوتا، تجھے مشکل نہیں ہوتا |
تشریح:
یہ شعر عاشق و معشوق کی مجبوری اور آزادی کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ عاشق اپنے جذبات میں گرفتار اور ہر کام میں مجبور ہوتا ہے، جبکہ محبوب بے نیاز اور خود مختار ہے۔ جس چیز کو عاشق مشکل سمجھتا ہے، وہ محبوب کے لیے آسان ہے۔
ہمیں ہنگامہ آرا تھے مگر جب سے ڈوبے ہیں کہیں طوفان نہیں اٹھتا کہیں ساحل نہیں ہوتا |
تشریح:
شاعر کہتے ہیں کہ جب تک وہ موجود تھے، ان کی موجودگی میں زندگی میں رونقیں تھیں۔ اب جب وہ نہیں ہیں، گویا دنیا بے رونق ہو گئی ہے۔ "طوفان نہیں اٹھتا" سے مراد زندگی میں کوئی تحریک یا جوش نہیں رہا۔
مزید اشعار اور ان کی تشریح کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سوالات و جوابات
سوال ۱: غزل کے چوتھے شعر میں تابش کس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں؟
جواب:
اس شعر میں شاعر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی موجودگی میں زمانے میں رونق تھی، کیونکہ ان کا عشق ایک مثالی کارنامہ تھا۔ اب جب وہ نہیں رہے تو دنیا میں کوئی تحریک نہیں رہی۔
سوال ۲: غزل میں متضاد الفاظ کی نشاندہی کریں۔
جواب:
- مجبور ↔ مختار
- طوفان ↔ ساحل
- آسان ↔ مشکل
- جلوہ ↔ پردہ
سوال ۳: مندرجہ ذیل مرکبات کو جملوں میں استعمال کریں:
- تماشا سوز: ہمیں تماشا سوز حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے۔
- ہنگامہ آرا: وہ اچانک ہنگامہ آرا طور پر سامنے نمودار ہوئے۔
- آدابِ طلب: ہمیں آدابِ طلب سے واقف ہونا چاہیے۔
- پائے جستجو: جس کے پاس پائے جستجو ہو، وہ کامیاب ہوتا ہے۔
سوال ۴: ناقص مصرعوں کو مکمل کریں:
الف۔ ہر اک کارِ تمنا پر یہ مجبوری، یہ مختاری
ب۔ وہاں ہم تھے جہاں پانا ترا مشکل نہیں ہوتا
ج۔ تمھیں تم ہو، کوئی پردہ بھی اب حائل نہیں ہوتا
د۔ کبھی ہر جلوۂ صد رنگ حاصل تھا نگاہوں کو
یہ غزل تابش دہلوی کی شاعری کا ایک عمدہ نمونہ ہے جو فلسفہ، جذبات اور فنکاری کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ امید ہے طلباء کو یہ تشریح مفید معلوم ہوگی۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.