طالب علم کا مستقبل اور استاد
آج کی یہ تحریر محمد بنیامین نےلکھی ہے جس کے اندر انہوں نے طالب علم کا مستقبل اور استاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
استاد وہ ہستی ہے جو انسان کی زندگی کو سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔والدین کے بعد استاد ہی ہے جو ہماری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کوشش اور محنت کرتا رہتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک استاد ایک عظیم شخصیت کا نام ہے استاد کے بلند درجے کا اندازہ ہمیں مختلف اقوال اور احادیث سے ہوتا ہے مثلا ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے "بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا”۔ اور اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں” جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا”۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک طالب علم کی زندگی اور اس کے مستقبل پر استاد کا گہرا اثر پڑتا ہے اب میں جو باتیں عرض کرنے جا رہا ہوں وہ صرف میری رائے ہے اور ضروری نہیں کہ ہر کوئی اسے اتفاق کرے ،ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس سے اختلاف بھی کریں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہر استاد ایک جیسا نہیں ہوتا سب کا انداز اور مزاج مختلف ہوتا ہے ،کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ہنسی مذاق کرتے ہوئے پڑھاتے ہیں اور کچھ سخت مزاج ہوتے ہیں، خیر استاد جس مزاج کا بھی ہو ہمارے لیے قابل احترام ہے۔
اگر میں ایک کلاس کی بات کروں تو اس میں مختلف قسم کے طلباء ہوتے ہیں کچھ بہت زیادہ قابل اور لائق ہوتے ہیں، کچھ بالکل ناقابل اور کچھ درمیانی قسم کے ہوتے ہیں۔ عموما استاد بھی اسی طالب علم یا طلباء کو پسند کرتے ہیں جوقابل ہوتے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے اور وہ طلباء جو ناقابل ہوتے ہیں وہ استاد کی نظروں میں وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے، جوقابل اور لائق طلباء حاصل کرتے ہیں۔
صرف چند ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جو اس فطری عمل سے کچھ ہٹ کر کرتے ہیں یعنی وہ کلاس کے تمام طلباء کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھتے ہیں ،چاہے وہ قابل ہوں یا نہ قابل ۔اور میرے خیال میں یہ سب سے بہتر انداز ہے کیونکہ اس طرح کلاس کے طلباء احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے یقین ہے، کہ استاد کی نظر میں ہر طالب علم برابر ہے لیکن استاد نہ چاہتے ہوئے بھی شاید فطرت کے اگے سر جھکا لیتا ہے یعنی وہ اچھے طلباء اور ناقابل طلباء کے لیے الگ الگ رویہ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔اگر گستاخی نہ ہو تو میرے خیال میں اگر استاد چاہتا ہے کہ وہ ہر طالب علم کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھے تو انہیں فطرت کے خلاف کام کرناہوگا۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے اگر میں اپنی زندگی کے بارے میں بتاؤں ،تو جماعت اول سے لے کے جماعت نہم تک میں ایک ایسا طالب علم تھا جو زیادہ تر امتحانات میں دو یا تین مضامین میں فیل ہو جاتا تھا۔ اگر کبھی میں صرف ایک مضمون میں فیل ہوتا، تو میں بہت خوش ہوتا کیونکہ میں سوچتا تھا کہ صرف ایک ہی مضمون میں فیل ہوا ہوں ۔ہر سال کے اخری امتحان میں جسے ہم فائنل ٹرم کہتے ہیں ،میں بہت زیادہ محنت کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا کہ صرف پاس ہو سکوں اور اگلی جماعت میں جا سکوں۔
یہ بات نہیں کہ میں پڑھتا نہیں تھا بس میں جتنا بھی پڑھتا میری حالت تبدیل نہیں ہوتی تھی، کلاس میں میری حیثیت وہی تھی جو عموما ایک نالائق طالب علم کی ہوتی ہے میرے اساتذہ کی نظروں میں بھی میں ایک کمزور اور نالائق طالب علم تھا ۔اس وقت شاید میرے دل کے کسی کونے میں یہ آرزو ضرور تھی کہ میں بھی اپنے اساتذہ کی نظروں میں وہ مقام حاصل کر لوں جو لائق اور قابل طلباء کی ہے اور اساتذہ کا برتاؤ میرے ساتھ بھی وہی ہو جو لائق اور قابل طلباء کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہ فطرت کے خلاف بات تھی مجھے اپنے اساتذہ سے بھی کوئی شکایت نہیں کیونکہ اس وقت ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا ۔
جب میں نے جماعت نہم کا اغاز کیا تو میری زندگی ہی بدل گئی ہمارے کلاس ٹیچر جو ہمیں کیمسٹری پڑھاتے تھے ،جن کا نام عبدالحمید تھا ایک نہایت ہی شریف اور اچھے انسان تھے، مجھے ان کے پڑھانے کا انداز بہت پسند ایا کیمسٹری مجھے اچھے طریقے سے سمجھ اتی تھی۔ ایک دن میرے استاد نے مجھے بورڈ پر بلوا کر ایک سوال حل کرایا جو میں نے اسانی سے حل کر لیا ،اس پر انہوں نے سب کے سامنے میری تعریف کی اور مجھے شاباش دی۔ یقین کریں ایک طالب علم کی حیثیت سے اس دن میری زندگی بدل گئی، اس ایک شاباش نے مجھے اس قدر حوصلہ دیا کہ اب میں بھی خواہش رکھتا تھا کہ میں ان طلباء میں شامل ہوں جاؤں جو کلاس میں سب سے اچھے اور قابل تھے، اج میرے دل سے میرے استاد کے لیے دعا نکلتی ہے جن کی ایک شاباش کی وجہ سے میں اس راہ پر چلنے کے لیے تیار تھا جس پر چلتے ہوئے ایک طالب علم کی زندگی سنور سکتی ہے ۔
اب میں خود پڑھتا اور اچھے نمبروں کے ساتھ ہر امتحان پاس کرتا اب کلاس میں میری بھی ہوئی حیثیت اور عزت تھی جو تمام قابل اور لائق طلباء کی تھی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں بھی ایک دن یہ مقام حاصل کر سکتا ہوں، لیکن یہ ممکن ہوا تو صرف میرے اس استاد کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے جو انہوں نے شاباش کی صورت میں مجھے دیا۔
اللہ تعالی کے فضل سے اج میں ایک اچھے کالج میں پڑھ رہا ہوں تو اس میں میرے والدین کی دعا اور اساتذہ کی محنت شامل ہے اور ایسے کالج جیسے تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا اسان نہیں ہوتا لیکن اللہ کے فضل سے میں ایک بہترین کالج میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہا ہوں اگر اس دن مجھے شاباش کی صورت میں وہ حوصلہ افزائی نہ ملتی تو شاید میں اس کالج کے اندر داخلہ نہ لے پاتا ۔
ان تمام باتوں کو عرض کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ایک طالب علم کی زندگی پر استاد کے رویے کا کیا اثر ہوتا ہے آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے اساتذہ اور ہمارے والدین کو صحت دے جو ہماری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ محنت کرتے ہیں۔ امین
میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بنیامین کی یہ تحریر پسند ائی ہوگی کیونکہ جس طریقے سے انہوں نے تنقیدی انداز میں ایک ایسے عنصر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس سے طالب علم کی زندگی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کے پیچھے اساتذہ کا رویہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔