علم نحو کی تعریف
علم نحو، عربی زبان کی گرامر کا ایک اہم شعبہ ہے جو جملے کے مختلف اجزاء کے تعلقات کو بیان کرتا ہے۔ یہ علم، الفاظ کو صحیح ترتیب میں رکھنے اور جملے میں ان کے درست استعمال کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ علم نحو کے بنیادی اصول ہمیں اس بات کی سمجھ دیتے ہیں کہ کس طرح مختلف کلمات ایک دوسرے سے مربوط ہو کر ایک مفہوم بیان کرتے ہیں۔
عربی زبان میں الفاظ کے صحیح استعمال اور ان کے معنوی اطلاق کو سمجھنے کے لیے علم نحو کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ یہ علم، نہ صرف زبان کی ساخت بلکہ اس کی اصطلاحات، نحوہ، اور دیگر گرامر کی تفصیلات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اصول نحو کے مطابق، ہر لفظ اپنے مخصوص مقام پر استعمال ہوتا ہے اور اس کی جگہ جملے میں اہمیت رکھتی ہے۔
نحو کی افادیت اس وقت اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب ہمیں مختلف کلمات کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ تعلقات جملے کی ساخت اور اس کے معنوی پہلووں کو تشکیل دیتے ہیں۔ علم نحو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کس طرح الفاظ کو جملے میں ترتیب دے کر ان کے معانی کو واضح اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
علم نحو کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ یہ علم جملوں کے اجزاء میں ربط اور تعلقات کو ترتیب دینے کا فن ہے۔ یہ علم ہمیں عربی گرامر کے اصولوں کو سمجھنے اور ان کا عملی اطلاق کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح ہم نہ صرف صحیح طور پر عربی لکھ اور پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس زبان کی گہرائیوں میں بھی جا سکتے ہیں۔ علم نحو کی افادیت زبان کی درست ادائیگی اور فہم کو بہتر بنانے میں ناقابلِ انکار ہے۔
نحو کا لغوی معنی ہیں راستہ ، کنارہ یا ارادہ کرنا ہے۔ عربی کا علمِ نحو وہ علم ہے جس میں اسم، فعل اور حرف کو جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب اور ہر کلمہ کے آخری حرف کی حالت معلوم ہو۔ انسان عربی زبان بولنے اور لکھنے میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہے، مثلاً : زَید۔ٌ، دَارٌ، دَخَلَ، فِي، یہ چار کلمے ہیں، اب ان چاروں کو جوڑ کر ایک جملہ بنانا اور اس کو صحیح طور پر ادا کرنا یہ علم نحو سے حاصل ہوتا ہے۔
علم نحو کی وجہ تسمیہ
نحو کو نحو کہنے کی وجوہات درج ذیل ہیں:۔
۔ نحو کا ایک معنی طریقہ ہے۔ چونکہ متکلم اس علم کے ذریعے عرب کے طریقے پر چلتا ہے اس لیے اس علم کو نحو کہتے ہیں۔
۔ نحو کا ایک معنی کنارہ بھی ہے۔ چونکہ اس علم میں کلمے کے کنارے پر موجود (آخری حرف ) سے بحث کی جاتی ہے اس لیے اسے نحو سے تعبیر کیا گیا۔
۔ اس کا ایک معنی ارادہ کرنا بھی ہے۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کے قواعد کو جمع کرنے کا ارادہ کیا اس نے نَحَوْتُ کا لفظ استعمال کیا۔ جس کا معنی ہے میں نے ارادہ کیا اس لیے اسے نحو کہا گیا ۔
۔ اس کا ایک معنی مثل بھی ہے۔ چونکہ اس علم کا جاننے والا عربوں کی مثل کلام کرنے پر قادر ہو جاتا ہے اس لیے اسے نحو کا نام دیا گیا۔
علم نحو کی اقسام
علم نحو کی مختلف اقسام ہیں جو نہ صرف زبان کی ساخت بلکہ اس کی تجزیہ اور ارتقاء میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں ہم علمی نحو، عملی نحو اور تجزیاتی نحو پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔
سب سے پہلے، علمی نحو کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ قسم زبان کی بنیادی ساختیاتی قواعد و ضوابط کا مطالعہ کرتی ہے۔ علمی نحو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ جملے کیسے بنے، الفاظ کس طرح جملوں میں جمع کیے جاتے ہیں اور مختلف لسانی عناصر کیسے باہمی ربط رکھتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں، علمی نحو اساتذہ اور طلباء کے لئے زبان کی گہرائی میں جا کر سمجھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مثلا، اردو زبان میں فعل، فاعل اور مفعول کا مطالعہ عملی نحوی قواعد کے تحت آتا ہے۔
عملی نحو زبان کے روزمرہ استعمال میں کام آنے والی گرامر کو بیان کرتی ہے۔ یہ عمومی قواعد کے بجائے عملی طور پر استعمال ہونے والی گرامر کو سامنے لاتی ہے۔ عملی نحو کا مقصد زبان کو باحثیت افراد کی گفتگو اور لکھنے پڑھنے کے دوران صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ عملی نحو کی مثالوں میں روزمرہ گفتگو، اخباروں کے مضامین اور رسمی دستاویزات شامل ہیں۔ مثلاً، جملوں میں افعال کے صحیح آزمودہ ساخت کو سمجھنا، اسم اور صفت کا درست استعمال وغیرہ عملی نحو کا حصہ ہیں۔
تجزیاتی نحو زبان کی ساخت اور اس کے مختلف اجزاء کی عبارت پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس قسم کے مطالعے میں جملے کے مختلف حصوں کا تجزیہ، ان کے معنوی تعلقات اور ان کے ضرورتوں کا تجزیہ شامل ہوتا ہے۔ تجزیاتی نحو کا استعمال تعلیمی میدان میں اسکالرز اور لسانیات کے ماہرین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، مختلف لسانی مظاہر جیسے کہ متغیرہ الفاظ اور ان کے نحوی کردار کی جانچ پڑتال کرنا تجزیاتی نحو کے دائرے میں آتا ہے۔
علم نحو کی اہمیت
علم نحو، جو عربی زبان کی بنیادوں میں سے ایک ہے، انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً مسلمانوں کے لئے۔ قرآن مجید اور حدیث کی صحیح سمجھ بوجھ کے لئے علم نحو کا علم ہونا لازمی ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث کی درست تفسیر اور معنوی فہم کے لئے، زبان کے قواعد اور نحو کی مہارت ضروری ہوتی ہے کیوں کہ ایک معمولی سے نحو کی غلطی مفہوم کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔
علم نحو کی اہمیت اسی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جدید زبانوں کی تعلیم و تدریس میں بھی یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عربی زبان سیکھنے والے طلبا اور بچیوں کے لئے یہ علم بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے وہ آسانی سے دیگر زبانوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ علم نحو نہ صرف عربی زبان کے تعلیمی معیار کو بلند کرتا ہے بلکہ زبان کی ساخت و ترتیب کو بھی طاقتور بناتا ہے۔
دینی مدارس اور جامعات میں علم نحو کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ تعلیمی ادارے طلبا کو نہ صرف قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ عربی زبان کے اصولوں کی گہرائی بھی سمجھاتے ہیں۔ اس لئے علم نحو کی تدریس کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے تاکہ طلبا دینی علوم کے ساتھ ساتھ زبانی مہارت بھی حاصل کر سکیں۔
علم نحو کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اگر آپ عربی زبان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو علم نحو پر عبور حاصل کرنا ہوگا۔ اس سے نہ صرف قرآن مجید اور حدیث کی تعلیمات بہتر سمجھ میں آتی ہیں بلکہ اس کے ذریعے ہم روزمرہ زندگی میں بھی عربی زبان کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ مختلف دینی مدارس میں اساتذہ نحو کی تدریس پر خاص توجہ دیتے ہیں تاکہ مستقبل کے عالم دین کامل اور خوبصرت عربی زبان میں محترر و فصیح ہو سکیں۔
علم نحو کی مثالیں
علم نحو کی فرضی اصولوں کی تفہیم کے لئے مثالیں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ آئیے علم نحو کے چند بنیادی قواعد کی مختلف مثالوں پر غور کرتے ہیں تاکہ ان کا عملی اطلاق کرنے کا طریقہ سمجھ سکیں۔
سب سے پہلے ہم "موضوع” کی مثال لیتے ہیں: "احمد کتاب پڑھ رہا ہے۔” یہاں پر "احمد” جملے کا موضوع ہے کیونکہ یہ جملے کا مقصد ہے اور اعمال اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
اب ہم "مفعول” کی مثال پر غور کرتے ہیں: "علی نے بال کھیلی۔” اس جملے میں "بال” مفعول ہے کیونکہ یہ وہ شے ہے جس پر فعل انجام پایا ہے۔
فعل کی مثال میں، "کتاب پڑھ رہا ہے” کو دیکھیں۔ یہاں "پڑھ رہا ہے” فعل ہے جو موضوع (احمد) کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور وہ عمل کو پتا رہا ہے۔
جملہ اسمیہ کی مثال: "کتاب اچھی ہے۔” یہ ایک جملہ اسمیہ ہے کیونکہ یہ کسی شے کا حال بیان کر رہا ہے اور مرکزی ذریعہ اسم ہے، "کتاب”۔
جملہ فعلیہ کی مثال: "علی بازار گیا۔” یہ جملہ فعلیہ ہے کیونکہ اس میں علی کا ایک عمل (بازار جانا) بیان کیا گیا ہے اور یہ عمل بطور فعل جملے کا بنیادی حصہ ہے۔
ہر مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم نحو کی بنیادی زمینی اصولوں کو سمجھنا زبان کی تفہیم اور بامقصد بات چیت کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ ان مثالوں کے ذریعے علم نحو کے قواعد و ضوابط کو نہ صرف سمجھنا بلکہ ان کا عملی اطلاق کرنے میں بھی سہولت مل سکتی ہے، جو کہ زبان کی استواری اور بہتر اظہار کے لئے لازم ہے۔