فراق گورکھ پوری کی غزل سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں کی تشریح

فراق گورکھ پوری کی غزل سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں کی تشریح

فراق گورکھپوری کی یہ غزل جذبات کی گہرائی، انسانی تعلقات کی پیچیدگی، اور عشق کی تہہ دار کیفیات کا عکاس شاہکار ہے۔ اس میں شاعر نے محبت، جدائی، بے اعتنائی، صبر، اور دوستوں کی بےرخی جیسے موضوعات کو نہایت خوبصورتی اور نفاست سے بیان کیا ہے۔ غزل میں ایک طرف عاشق کی ٹوٹ پھوٹ ہے، تو دوسری طرف محبوب کی بےنیازی، جس سے ایک مستقل تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ شاعر کی زبان شائستہ ہے، لیکن اس کے اندر چھپی تلخی، طنز اور سچائی دل کو چھو لینے والی ہے۔ ہر شعر اپنے اندر ایک مکمل کائنات سموئے ہوئے ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ محبت محض خوشی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک دردناک تجربہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس آرٹیکل میں فراق گورکھ پوری کی غزل سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید نوٹس اور تشریحات کے لیے یہاں کلک کریں۔

شعر 1:     سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں۔ لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
مفہوم
:     نہ تو عشق کا جنون باقی ہے اور نہ ہی کسی آرزو کی خلش، مگر پھر بھی اس محبت کو چھوڑ دینے پر دل مطمئن نہیں ہے۔
تشریح:    شاعر کہتا ہے کہ وہ حالتِ عشق میں نہیں رہا — نہ جنون باقی ہے، نہ کسی کا اشتیاق یا تمنا، لیکن وہ جسے محبت ترک کرنا کہتے ہیں، اس کا یقین بھی دل کو نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت کا سلسلہ ظاہری طور پر ختم ہو چکا ہے، لیکن اندر کہیں ایک بے یقینی باقی ہے۔ شاید یہ وہ مقام ہے جہاں انسان محبت کو لفظوں میں ختم کر دیتا ہے، مگر دل میں اس کا اثر باقی رہتا ہے۔ یہ شعر انسانی جذبات کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں محبت، ترکِ محبت، اور بے یقینی تینوں ایک ساتھ موجود ہیں۔

شعر 2:     دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں۔ لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
مفہوم
:     دل نہ تو اپنے لوگوں میں شمار ہوتا ہے نہ اجنبیوں میں، مگر پھر بھی وہ اس محبوب کی محفل سے اٹھنے کو تیار نہیں۔
تشریح:    یہاں شاعر دل کی ایک عجیب کیفیت بیان کرتا ہے — دل کو کسی طرف کی مکمل نسبت نہیں رہی، نہ وہ اپنوں میں شمار ہوتا ہے اور نہ پرایوں میں، گویا ایک بے شناخت، بے مقام دل ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس محفلِ ناز سے الگ نہیں ہو پاتا، جہاں وہ محبوب موجود ہے۔ یہ شعر انسانی وابستگی، شناخت، اور وفاداری کے تضادات کو عیاں کرتا ہے۔ محبت کبھی کبھی انسان کو ایسے مقام پر لے آتی ہے جہاں وہ اپنی پہچان کھو دیتا ہے، لیکن پھر بھی اس وابستگی کو چھوڑ نہیں پاتا۔

شعر 3:    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست۔ آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
مفہوم
:     محض مہربانی کو محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا، اور اب تو تیرے بے وجہ خفا ہونے پر بھی مجھے اعتراض نہیں رہا۔
تشریح:    شاعر ایک تلخ حقیقت بیان کرتا ہے کہ صرف کسی کی مہربانی کو محبت سمجھ لینا فریب ہے۔ وہ مخاطب (دوست یا محبوب) کو کہتا ہے کہ اگر تُو مہربان ہے، تو یہ محبت کی ضمانت نہیں۔ اور اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ تُو بلاوجہ ناراض بھی ہو جائے، تو وہ بھی قابل برداشت لگتا ہے۔ اس شعر میں جذبے کی شدت اور مایوسی دونوں جھلکتے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر محبت کی اصلیت کو اب سمجھنے لگا ہے، اور دل میں ایک طرح کی بے نیازی بھی پیدا ہو گئی ہے۔

شعر 4:    ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں۔ اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
مفہوم
:     بہت عرصے سے ہم نے تجھے یاد نہیں کیا، لیکن یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم تجھے بھول چکے ہیں۔
تشریح:    یہ شعر محبت کی اُس کیفیت کو بیان کرتا ہے جہاں یادیں وقتی طور پر خاموش ہو جاتی ہیں، لیکن دل سے محو نہیں ہوتیں۔ شاعر کہتا ہے کہ چاہے وقت گزر گیا ہو اور تیری یاد نہ آئی ہو، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تُو دل سے نکل گیا ہے۔ انسان کبھی کبھی زندگی کی مصروفیات، تھکن یا اندرونی بےحسی کی وجہ سے کسی کو یاد کرنا چھوڑ دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب محبت کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ اس میں ایک گہرا دکھ بھی ہے، جیسے کہ شاعر خود حیران ہے کہ یاد بھی نہیں آئی، لیکن ساتھ ہی وہ محبوب کو تسلی بھی دیتا ہے کہ محبت اب بھی باقی ہے۔ یاد نہ آنا، محبت کا انکار نہیں بلکہ شاید اس کی خاموش شدت ہے۔

شعر 5:     آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا۔ آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
مفہوم
:     آج محبوب کی آنکھوں میں لاپرواہی اور بےنیازی پہلے سے زیادہ ہے، اور اتفاق سے آج ہی میرے صبر کی بھی حد ختم ہو گئی ہے۔
تشریح:    یہ شعر محبت کی اس نازک گھڑی کو بیان کرتا ہے جب دونوں طرف کی کیفیتیں ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتی ہیں۔ محبوب کی بے اعتنائی اپنے عروج پر ہے، اور عاشق کا صبر اپنے اختتام پر۔ “خاطرِ بیمار” کا مطلب ہے دل کی وہ حالت جو پہلے ہی کمزور تھی، اور اب وہ بے نیازی برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ اس شعر میں جذباتی ٹوٹ پھوٹ، بے قراری، اور محبوب کی سرد مہری کے اثرات بھرپور انداز میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ شاعر بتانا چاہتا ہے کہ جب عاشق کا دل پہلے ہی کمزور ہو تو ایک معمولی سا صدمہ بھی ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ محبوب کی آنکھوں کی غفلت ایک طنز ہے، جو اُس کی بےحسی کو نمایاں کرتی ہے۔

شعر 6:     بات یہ ہے کہ سکون دلِ وحشی کا مقام۔ کنجِ زنداں بھی نہیں وسعتِ صحرا بھی نہیں
مفہوم
:     دل کی بےچینی اس قدر ہے کہ اسے قیدخانے کی تنہائی بھی چین نہیں دیتی اور صحرا کی وسعتیں بھی اس کے لیے کافی نہیں۔
تشریح:    شاعر اپنے دل کی بےقراری اور اضطراب کو ایک وحشی دل سے تشبیہ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دل اتنا بےچین ہے کہ نہ قیدخانے کی خاموشی اسے راحت دیتی ہے، نہ صحرا کی کھلی فضا اسے سکون دے پاتی ہے۔ یہ کیفیت اُس عاشق کی ہے جو ہر جگہ سکون تلاش کرتا ہے، مگر کوئی جگہ اس کے لیے “جگہ” نہیں بن پاتی۔ دلِ وحشی ایک ایسا دل ہے جو کسی حال میں خوش نہیں — اس کا سکون شاید محبوب کی قربت ہی میں پوشیدہ ہے، جو میسر نہیں۔ یہ شعر انسانی وجود کی اُس روحانی اور جذباتی تلاش کی عکاسی ہے، جو دنیا کے ہر کونے میں سکون ڈھونڈتی ہے مگر ناکام رہتی ہے۔

شعر 7:    ارے صیّاد! ہمیں گل ہیں، ہمیں بلبل ہیں۔ تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں، دیکھا بھی نہیں
مفہوم
:     اے صیّاد! ہم ہی گل (پھول) بھی ہیں اور بلبل بھی، لیکن تُو نے نہ ہماری فریاد سنی نہ ہماری حالت دیکھی۔
تشریح:    یہ شعر محبوب یا کسی بے حس سماج سے شکوہ ہے۔ شاعر خود کو گل اور بلبل کہتا ہے — یعنی وہ بھی فطرت کا خوبصورت اور نازک حصہ ہے، جو درد بھی سہتا ہے اور آواز بھی اٹھاتا ہے۔ “صیاد” شکاری ہے، جو نہ صرف بلبل کو قید کرتا ہے بلکہ اس کے نغموں، اس کے درد اور اس کی خوبصورتی کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔ شاعر کا دکھ یہ ہے کہ وہ اپنی فریاد کرتا رہا، اپنی حالت دکھاتا رہا، مگر صیاد نے کچھ نہیں سنا، کچھ نہیں دیکھا۔ یہ بےحسی اور سنگدلی کا منظر ہے جہاں احساس مر چکا ہو۔ ساتھ ہی شاعر اپنی اہمیت بھی جتاتا ہے — کہ وہ خود گل بھی ہے اور بلبل بھی، یعنی درد بھی اس میں ہے اور خوبصورتی بھی، لیکن پھر بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

شعر 8:    آہ یہ مجمعِ احباب، یہ بزمِ خاموش۔ آج محفل میں فراقؔ، سخن آرا بھی نہیں
مفہوم
:     آج دوستوں کی محفل تو موجود ہے، لیکن سب خاموش ہیں کیونکہ آج فراقؔ جیسا بات کرنے والا بھی موجود نہیں۔
تشریح:    یہ ایک اداس اور تنہائی سے لبریز شعر ہے۔ شاعر کسی محفل کا ذکر کرتا ہے جہاں سب دوست موجود ہیں، لیکن محفل میں وہ جان، وہ شعلہ بیانی، وہ گفتگو کا ذوق نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ وہ خود کو “سخن آرا” کہتا ہے — یعنی باتوں کو خوبصورت اور بامعنی انداز میں پیش کرنے والا۔ گویا آج جب وہ خود اس محفل میں نہیں ہے یا دل سے غائب ہے، تو محفل بےرنگ ہو گئی ہے۔ اس شعر میں خودستائشی کے ساتھ ساتھ ایک تلخی بھی ہے — شاعر کو اس بات کا دکھ ہے کہ دوستوں کی موجودگی کے باوجود محفل بےرنگ ہے، کیونکہ دلوں میں وہ پرانی حرارت باقی نہیں رہی۔

شعر 9:     یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور۔ یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں
مفہوم
:     یہ بات بھی سچ ہے کہ میں محبت کرنے پر مجبور نہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ تیرا حسن کچھ ایسا خاص بھی نہیں۔
تشریح:    یہ شعر ایک طرح سے محبت سے بیزاری اور طنز کا مرکب ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں کوئی ایسا عاشق نہیں جو بے اختیاری میں محبت کر بیٹھے، اور دوسری طرف محبوب کا حسن بھی ایسا نہیں جو مجھے مجبور کرے۔ یہ محبت کی اس سطح کی عکاسی ہے جہاں عاشق جذباتی طور پر تھک چکا ہے، اور اب وہ حسن کی حقیقت کو مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ شاعر کی زبان میں ایک طرح کی آزادی اور خودداری ہے، جس میں وہ محبوب کے حسن کو بھی عام قرار دیتا ہے اور اپنی محبت کو بھی کوئی مجبوری نہیں مانتا۔

شعر 10:    یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق۔ مگر اے دوست! کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں
مفہوم
:     عاشقِ صادق عام طور پر شور نہیں مچاتے، لیکن کچھ دیوانے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا۔
تشریح:    شاعر یہاں عشق کی مختلف اقسام بیان کرتا ہے۔ کچھ دیوانے خاموش ہوتے ہیں، اندر ہی اندر تڑپتے ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نہ کوئی جگہ راس آتی ہے اور نہ وہ کسی جگہ ٹکتے ہیں۔ ان کی دیوانگی اس قدر ہوتی ہے کہ وہ ہنگامہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ شعر ان عاشقوں کا بیان ہے جو نہ صرف جذباتی طور پر مضطرب ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر بھی بےٹھکانا، بےسکون ہوتے ہیں۔ یہ شعر عشق کے سماجی اثرات اور جذباتی ناپائیداری کو ظاہر کرتا ہے۔

شعر 11:    فطرتِ حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم۔ چارہ ہی کیا ہے، بجز صبر؟ سو ہوتا بھی نہیں
مفہوم
:      اے دوست! تُو حسن کی فطرت سے واقف ہے — اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ صبر کیا جائے، اور وہ بھی آسان نہیں۔
تشریح:    یہ شعر ایک سچائی پر مبنی ہے: کہ حسن کی فطرت میں بے نیازی، سرد مہری، اور آزمائش ہے۔ عاشق کچھ کر بھی نہیں سکتا، سوائے صبر کے۔ اور شاعر اس صبر کو بھی آسان نہیں کہتا۔ یہاں حسن صرف ظاہری نہیں بلکہ ایک علامت ہے اس کی بےوفائی، اس کی دوری، یا اس کی آزمائش کی، جو عاشق کے لیے ایک مستقل آزمائش ہے۔ شاعر یہ تسلیم کرتا ہے کہ حسن کی فطرت وہی ہے، مگر دل کو مطمئن کرنا، صبر کرنا، ایک الگ جدوجہد ہے۔

شعر 12:    منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ۔ ہے ترا دوست، مگر آدمی اچھا بھی نہیں
مفہوم
:     ہم زبان سے تیرا برا تو نہیں کہتے، کیونکہ تُو ہمارا دوست ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ تُو اچھا انسان نہیں۔
تشریح:    یہ شعر طنز اور سچائی کا بہترین امتزاج ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی بات کر رہا ہے جو اس کا دوست تو ہے، لیکن کردار یا عمل کے لحاظ سے پسندیدہ نہیں۔ اس میں وہ اخلاقی کشمکش بھی جھلکتی ہے جب ہم کسی کے بارے میں سچ کہنے سے گریز کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ ہمارا دوست ہے۔ مگر دل میں ہمیں اس کے عیب نظر آتے ہیں۔ یہ شعر انسانی تعلقات کی پیچیدگی، منافقت، اور سچائی کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کرتا ہے۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Index

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Subscribe