فیض احمد فیض کی غزل کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کی تشریح

فیض احمد فیض کی غزل کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کی تشریح

فیض احمد فیض کی یہ غزل عشق، حوصلے، اور انسان دوستی کا ایک عظیم بیان ہے۔ اس میں محبت کو صرف ذاتی جذبہ نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک قربانی، اور ایک وقار کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فیض نہ صرف محبوب کی یاد کو روحانی سکون کا ذریعہ بناتے ہیں بلکہ عشق کی راہ میں جان نچھاور کرنے کو بھی شان و عظمت کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ ذات پات، نام و نسب کی بندشوں کو رد کرتے ہوئے عشق کو خالص انسانی جذبہ قرار دیتے ہیں۔ اس غزل میں فیض کا مخصوص انقلابی رنگ جھلکتا ہے، جو محبت کو بزدلی نہیں، بلکہ بہادری کا نشان بنا دیتا ہے۔ اس آرٹیکل میں فیض احمد فیض کی غزل کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور بارہویں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

شعر 1:     کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں۔ صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مفہوم
:     تیری یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے اور تیری قربت کا احساس ہمیشہ میرے ہاتھوں میں موجود رہا ہے۔ شکر ہے کہ اب میری راتیں جدائی کی راتوں میں تبدیل نہیں ہوتیں۔
تشریح:    فیض یہاں یاد اور قربت کے اس روحانی اور نفسیاتی تعلق کو بیان کرتے ہیں جو جسمانی فاصلوں کے باوجود باقی رہتا ہے۔ شاعر محبوب سے جسمانی دوری کا ذکر نہیں کرتا بلکہ یاد کی موجودگی کو کافی جانتا ہے۔ اس کی زندگی میں ایسی کوئی گھڑی نہیں آئی جب اس نے محبوب کو یاد نہ کیا ہو یا دل نے اس کا ساتھ چھوڑا ہو۔ “ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں” کا مطلب صرف جسمانی لمس نہیں بلکہ ایک جذباتی وابستگی بھی ہے جو شاعر کے احساسات میں ہمہ وقت موجود ہے۔
دوسرا مصرعہ خوشی کا اظہار ہے — اب شاعر کی راتیں تنہائی یا ہجر کی نہیں رہیں۔ یا تو وصال ہو چکا ہے، یا پھر وہ اس یاد کو اتنا مکمل محسوس کرتا ہے کہ اب تنہائی کا احساس باقی نہیں رہا۔ یہ شعر انسانی تعلق کی روحانیت، جذبات کی گہرائی، اور محبت کی وہ شکل بیان کرتا ہے جو وقت اور فاصلوں سے ماورا ہوتی ہے۔ فیض کی شاعری میں یہ رومانوی تاثر دراصل ایک گہرے جذباتی سکون کی علامت ہے، جو ہجر کے بعد حاصل ہوا ہے۔

شعر 2:     مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔ دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
مفہوم
:     اگر کوچۂ محبوب میں حالات سخت ہوں تو ہم دل کو بھی بیچنے اور جان کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں — دل والو! کیا یہ معمولی بات ہے، کیا ہم اتنے بے بس ہیں؟
تشریح:    یہ شعر عشق کی راہ میں دی جانے والی قربانیوں اور بےخوفی کی ایک عظیم مثال پیش کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر محبوب کے کوچے میں داخل ہونا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے، تو ہم اپنے دل کو بھی بیچ سکتے ہیں اور جان تک قربان کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عظیم جذبہ ہے، جس میں انسان محبت کے لیے ہر چیز تج دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں “دل والو” سے مخاطب ہو کر فیض عاشقوں کی ہمت بندھاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ خوف کیسا؟ کیا عشق میں ایسے وقت نہیں آتے؟ یہ بات صرف رومانی محبت کی نہیں بلکہ انقلابی اور نظریاتی جدوجہد کی علامت بھی بن جاتی ہے، جہاں “کوچہ جاناں” محبوب کا نہیں بلکہ “نظریہ”، “وطن”، یا “آزادی” بھی ہو سکتا ہے۔ فیض کی شاعری میں اکثر عشق اور انقلاب کا امتزاج ملتا ہے، اور یہ شعر اس کی بہترین مثال ہے۔ قربانی، جذبہ، اور بےخوفی — یہ سب اس شعر میں موجود ہیں، اور قاری کو حوصلہ دیتے ہیں کہ سچے جذبے کے لیے ہر قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔

شعر 3:    جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
مفہوم
:     جو انداز اور وقار کے ساتھ کوئی سولی پر چڑھتا ہے، وہ شان ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ جان تو آنی جانی چیز ہے، اس کی کیا اہمیت؟
تشریح:    یہ فیض کا ایک انتہائی انقلابی شعر ہے، جو کسی بھی قربانی کو عظمت کی علامت بناتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر کوئی مردِ مجاہد یا عاشق جس وقار، دلیری اور شان سے موت کو گلے لگاتا ہے، وہ انداز تاریخ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ مرنا سب کو ہے، مگر وہ موت جو نظریے، سچ یا عشق کے لیے ہو — وہ ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔ “مقتل” صرف سزائے موت کی جگہ نہیں بلکہ وہ مقام ہے جہاں سچ بولنے والے، محبت کرنے والے یا نظریاتی لوگ قربان ہو جاتے ہیں۔ فیض یہاں زندگی کی فانی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر جان قربان کرنی ہی ہے تو کیوں نہ اسے کسی عظیم مقصد کے لیے قربان کیا جائے؟
یہ شعر بہادری، وقار اور اصولوں کے لیے کھڑے ہونے کا استعارہ بن چکا ہے۔ اس میں نہ صرف رومانوی محبوب کی راہ میں جان قربان کرنے کا جذبہ ہے بلکہ ایک سماجی اور انقلابی پیغام بھی ہے — کہ سچائی کے لیے دی جانے والی جان رائیگاں نہیں جاتی۔

شعر 4:    میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں۔ عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
مفہوم
:     وفاداری کا میدان کوئی بادشاہی دربار نہیں جہاں نام و نسب پوچھے جائیں — عشق نہ کسی کے نام سے ہوتا ہے، نہ ذات سے۔
تشریح:    فیض یہاں معاشرتی تفریق اور طبقاتی نظام پر گہرا طنز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق اور وفا کا میدان وہ مقام ہے جہاں ذات پات، حسب نسب، خاندانی شرف یا سماجی مرتبہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ دربار نہیں بلکہ ایک روحانی و اخلاقی امتحان گاہ ہے، جہاں صرف سچے جذبے کی قدر ہوتی ہے۔ شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ عشق کسی ایک فرد سے منسلک نہیں — یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو انسانی سرحدوں سے آزاد ہوتا ہے۔ “عاشق تو کسی کا نام نہیں” — یعنی عشق ایک عالمگیر جذبہ ہے، جو کسی مخصوص مذہب، قوم یا قبیلے سے بندھا ہوا نہیں۔ اس شعر میں فیض انسان دوستی، رواداری، اور جذباتی برابری کا پیغام دیتے ہیں۔
یہ شعر صرف محبت ہی نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور سماجی بیان بھی ہے۔ یہ تمام تعصبات، امتیازات اور طبقاتی تقسیم کو رد کرتا ہے۔ فیض اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جہاں محبت ہو، وہاں انسان صرف انسان ہوتا ہے — نہ کوئی اعلیٰ نہ ادنیٰ، نہ امیر نہ غریب، نہ ذات کا بندھن نہ قبیلے کی قید۔

شعر 5:     گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
مفہوم
:     اگر عشق ایک بازی (کھیل) ہے تو جو کچھ تمہارے پاس ہے، سب لگا دو — ڈر کیسا؟ اگر جیت گئے تو کامیابی ہے، ہار گئے تو بھی یہ بازی ہار نہیں۔
تشریح:    یہ شعر عشق کے کھیل کو ایک جوئے کے کھیل سے تشبیہ دیتا ہے، لیکن یہاں جو داؤ پر لگا ہے وہ عام مال و دولت نہیں، بلکہ دل، جان، خواب اور نظریہ ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ اگر عشق میں قدم رکھا ہے تو پھر کسی خوف یا جھجک کی گنجائش نہیں۔ مکمل طور پر خود کو اس میں لگا دینا ہی سچے عاشق کی پہچان ہے۔ یہاں جیت یا ہار صرف رسمی معنی نہیں رکھتے۔ اگر عاشق کامیاب ہو جائے، محبوب مل جائے یا نظریہ کامیاب ہو جائے تو وہ فتح ہے۔ لیکن اگر وہ شکست کھا جائے، تو بھی اس نے جو قربانی دی، جو اخلاص دکھایا، وہ خود ایک کامیابی ہے۔ اس طرح وہ “ہار” بھی اصل میں “مات” نہیں۔
یہ شعر ایک زبردست انقلابی پیغام رکھتا ہے: کہ جو لوگ سچائی، محبت یا نظریے کے لیے لڑتے ہیں، وہ کبھی ہارتے نہیں — چاہے وہ دنیاوی طور پر کامیاب نہ ہوں۔ فیض یہاں قاری کو جرأت، یقین، اور بےخوفی کا سبق دیتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ عشق ایک مقدس جدوجہد ہے، جس میں لگنے والی ہر چیز قیمتی ہے اور ہر انجام باعزت۔

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Index

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading