قافیہ اور ردیف میں فرق
اردو شاعری کا فنی حسن ہمیشہ معانی کی خوبصورتی اور الفاظ کی مہارت سے ہی نہیں بلکہ قافیہ اور ردیف کے استعمال سے بھی نکھرتا ہے۔ قافیہ اور ردیف کی تعریف اور ان کی اہمیت کو سمجھنا شاعری کے بنیادی اصولوں کو جاننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
قافیہ وہ الفاظ ہیں جو شاعری کے مصرعوں کے اختتام پر ایک جیسے یا متقارب آوازوں پر ختم ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ شعر میں موسیقیت اور ردم پیدا کرتے ہیں، جس سے سامعین کو اشعار یاد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ قافیہ شاعری میں توازن اور ہم آہنگی کا احساس پیدا کرتا ہے، اور سامع کو لفظوں کی گونج پسند آتی ہے۔
ردیف وہ الفاظ یا حروف ہیں جو قافیہ کے بعد مستقل طور پر آتے ہیں۔ ردیف کا استعمال شاعری کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتا ہے، کیونکہ یہ شاعری کو ایک خاص ترتیب اور تسلسل فراہم کرتا ہے۔ ردیف کے ذریعہ شاعر اپنی بات کو مؤثر طریقے سے بیان کر سکتا ہے، کیونکہ یہ شاعری کے الفاظ کو ایک مخصوص معنی میں باندھ دیتا ہے۔
دونوں، قافیہ اور ردیف، شاعری کے فنی اصولوں میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف شاعری کے موسقی پہلوؤں کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ اشعار کے معانی اور خیالات کو بھی بہتر طریقے سے پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ بہت سے ادیب اور شاعر وقت کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کو اپنانے اور ان میں نئی جہتیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جس سے اردو شاعری کا خزانہ مزید وسیع اور دلچسپ بنتا گیا ہے۔
قافیہ کیا ہے؟
قافیہ شاعری کی ایک اہم تکنیکی خصوصیت ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا لفظ یا لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں آکر پہلا مصرعہ مکمل کرتا ہے اور اس کی صوتی مطابقت بناتا ہے۔ قافیہ کی سب سے قابل ذکر خصوصیت اس کی ہم آواز ہونا ہے۔ قافیہ وہ لفظ ہے جو ہر مصرع کے آخر میں بار بار آتا ہے اور شعر کی موسیقیت میں ایک خاص اثر پیدا کرتا ہے۔
قافیہ لفظ قفو سے ہے جس کے معنی پیروی کرنے کےاور پیچھے آنے والے کے ہیں۔اردو ادب میں قافیہ ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اشعار میں الفاظ کے ساتھ غیر مسلسل طورپر آخر میں بار بار آتے ہیں۔یہ الفاظ بعض وقت غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں مگر ہٹا دیئے جانے پر بھی خلا پیدا کر جاتے ہیں۔اس لیے ترنم اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے قافیہ کا استعمال لازم و ملزوم تصور کیا جاتا یے۔اس کی ایک خوبصورت مثال ملاحظہ فرمائیں؛
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
مندرجہ بالا شعر میں ۔ہوا۔ اور ۔دوا۔ قوافی ہیں۔
قافیہ کی مختلف اقسام ہیں جن میں ہم قافیہ، مختوم قافیہ اور مکس قافیہ شامل ہیں۔ ہم قافیہ وہ قافیہ ہے جس کا آخری حرف تھوڑا سا مختلف ہو لیکن بقیہ حصہ ایک جیسا ہو، مثلاً "گھر” اور "سر”۔ مختوم قافیہ وہ ہوتا ہے جس میں آخری دو یا تین حروف یکساں ہوتے ہیں جیسے "چمن” اور "چمن”، یہاں دونوں الفاظ کا اختتام مشترکہ ہے۔
قافیہ کا استعمال شاعری میں اہم ہے کیونکہ یہ نظم کے مصرعوں میں یکسانیت اور موسیقیت پیدا کرتا ہے۔ اصول کی بات کی جائے تو قافیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ لفظ، اپنی صوتی مطابقت کی بنا پر، مصرع کے اختتام پر آئے اور شعر کے دیگر مصرعوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ مثال کے طور پر:۔
"دل کو خوشبو سے بھر لو ماں،
جیسے چمن میں پھول کھلے ہر جا”
اس شعر میں "ماں” اور "جا” قافیہ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ قافیہ یا قا فیہ کالش ناگزیر ہو سکتا ہے لیکن اس کا استعمال شاعری کی خوبصورتی کو بنتا ہے۔ قافیہ کا درست اور موزوں استعمال ناظم یا شاعر کی فنی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے، شاعر اپنی نظم کو خوبصورت اور دلچسپ بنا سکتا ہے، اور قاری یا سامع کو شعر کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ردیف کیا ہے؟
ردیف ایک اہم شعری عنصر ہے جو اردو غزل اور نظم میں شعر کے مؤثر اظہار کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ ردیف بنیادی طور پر وہ لفظ یا الفاظ ہوتے ہیں جو ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد شاعری کی ترتیب اور خوبصورتی میں اضافہ کرنا، اور ایک مخصوص موضوع یا جذبات کو زمین سے لانے میں معاون کرنا ہے۔
شاعری میں ردیف کے استعمال سے معنی اور جذبات کی تعمیق ہوتی ہے۔ ردیف کو شعر میں ایسی جگہ پر رکھا جاتا ہے جہاں اس کی تکرار سامعین یا قارئین کے دل میں خاص تاثر پیدا کرتی ہے۔ یہ تکرار نہ صرف شعر کو موسیقیائی اپیل دیتی ہے بلکہ یہ شاعری کے مجموعی بیانیے کو بھی مضبوط کرتی ہے۔
ردیف کےمعنی گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کے ہیں۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد قافیہ کے بعد آنے والے وہ الفاظ ہیں جو مکرر آتے ہوں۔ اور یکساں بھی ہوں مگر ردیف پر مصرعے میں آئے یہ بھی لازم نہیں ہوتا۔ یہ بعض وقت غزل کے مصرعہِ ثانی میں تکرار سے بھی آتا ہے۔اس کی ایک اور تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ۔ قافیہ کے بعد جو الفاظ مسلسل تکرار سے آئیں ردیف کہلاتا ہے۔ ایک عمدہ مثال ملاحظہ فرمائیں؛
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی کے پیرہین ہر پیکرِ تصویر کا
اس شعر میں دونوں مصرعوں میں موجود ۔ کا۔ ردیف کہلاتا ہے
ردیف کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ کچھ اشعار میں ایک لفظ کی تکرار کی جاتی ہے، جبکہ بعض اشعار میں جملے یا مخصوص فقرے مستقل دوہرائے جاتے ہیں۔ ردیف کے انتخاب میں شاعر کی مہارت کا استعمال ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سے الفاظ کی تکرار کی مدد سے اپنی بات کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔
مثال کے طور پر، مشہور شاعر میرزا غالب کا یہ شعر دیکھیں:
"بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے”
فوق الذکر شعر میں ‘مرے آگے’ ردیف ہے، جو ہر دوسرے مصرعے کے آخر میں دہرایا گیا ہے۔ یہ تکرار قارئین کی توجہ مرکوز کرتی ہے اور شعر کے مرکزی خیال کو نمایاں کرتی ہے۔
قافیہ اور ردیف میں فرق
قافیہ اور ردیف اردوادب کی شاعری کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ ان دونوں کے استعمال سے اشعار میں بےمثال حسن اور جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ قافیہ، جو شاعری میں ایک مخصوص آواز کا تکرار ہوتا ہے، شاعر کے اظہار کو ایک نظم و ضبط میں باندھ دیتا ہے۔ اس کے برعکس، ردیف وہ لفظ یا جملہ ہوتا ہے جو ہر شعر کے آخر میں آتا ہے اور اعادہ کرتا ہے، یہ شاعری کو اضافی گہرائی فراہم کرتا ہے۔
قافیہ اور ردیف کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ قافیہ شعری وزن اور صوتی ہم آہنگی کے لیے ہوتا ہے، جبکہ ردیف شاعری کے معنی اور ترتیب میں استحکام پیدا کرتا ہے۔ قافیہ عام طور پر ایک لفظ کا آخری حصہ ہوتا ہے جو دوسرے الفاظ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے، مثلاً: "چاند”، "اند”، "ہندوستاند” وغیرہ۔ ردیف، اس کے برخلاف، ایک مکمل صوتی جملہ ہوتا ہے جو ایک نکتہ کے طور پر ہر شعر کے آخر میں آتا ہے، جیسے کہ "ہے”، "گی” وغیرہ۔