قصیدہ: تعارف، تعریف، اجزاء اور مثالیں
قصیدہ اردو اور فارسی شاعری کی ایک اہم صنف ہے جس میں کسی شخصیت کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ عام طور پر قصیدہ بادشاہوں، وزراء، سرداروں یا کسی بڑی شخصیت کی تعریف کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اس صنف کو عموماً مدح اور تعریف کا کلام سمجھا جاتا ہے اور اس میں شاعر اپنی زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کو استعمال کرتے ہوئے مخاطب کی عظمت کو اُجاگر کرتا ہے۔
قصیدہ کی تعریف
قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جو “قصد” سے نکلا ہے جس کے معنی “ارادہ کرنا” کے ہیں۔ اصطلاح میں قصیدہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی زندہ شخص کی تعریف اور اُس کے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ قصیدے کو بعض اوقات شاعری کی دیگر اصناف کے مقابلے میں خاص مقام دیا جاتا ہے، جس طرح انسانی جسم میں دماغ کو اعلیٰ حیثیت حاصل ہے۔ قصیدے کی صنف کا استعمال مختلف درباری شاعروں نے بادشاہوں اور وزراء کی مدح سرائی کے لیے کیا۔
قصیدہ کی خصوصیات
قصیدہ عموماً طویل ہوتا ہے اور اس میں الفاظ کی شکوہ و بلاغت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ قصیدے کا آغاز عموماً مطلع سے ہوتا ہے اور اس میں ردیف کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔ اس صنف میں شاعری کی دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ توجہ اسلوب، استعارے، تشبیہات اور تشبیب پر دی جاتی ہے۔
قصیدہ کے اجزاء
قصیدہ چار بنیادی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے
تشبیب
تشبیب قصیدے کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے، جس میں شاعر عمومی موضوعات جیسے بہار، شباب، یا قدرتی مناظر کا ذکر کرتا ہے۔ اگرچہ تشبیب کے لیے عشقیہ یا بہاریہ موضوعات اکثر منتخب کیے جاتے ہیں، لیکن اس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ تشبیب قصیدے میں مدح کی طرف نرمی سے منتقلی کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔
گریز
تشبیب کے بعد شاعر اصل موضوع کی طرف آہستہ آہستہ منتقل ہوتا ہے، جسے “گریز” کہتے ہیں۔ گریز کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تشبیب اور مدح کو ہنرمندی کے ساتھ ملایا جائے تاکہ قصیدہ سلیقے سے آگے بڑھے اور پڑھنے والا شاعر کی فنی مہارت کا قائل ہو۔
مدح
مدح قصیدے کا سب سے اہم اور مرکزی حصہ ہوتا ہے جس میں شاعر ممدوح کی خصوصیات کو بیان کرتا ہے۔ مدح میں مختلف اوصاف جیسے عظمت، عدل، بہادری، دین داری، اور علم دوستی وغیرہ کو شاعری کے ذریعے اُجاگر کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں شاعر کی تمام تر فنی مہارت اور الفاظ کے شکوہ کا اظہار ہوتا ہے۔
دعا
قصیدے کے اختتام پر شاعر ممدوح کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ دعا کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے جیسے ممدوح کی خوشحالی، کامیابی یا درازی عمر کی تمنا۔ اکثر اوقات شاعر اس حصے میں اپنے لیے بھی صلہ طلب کرتا ہے اور قصیدے کے مقطع میں اپنا تخلص بھی شامل کرتا ہے۔
قصیدہ کی مثال
قصیدہ کے حسن و شکوہ کا اندازہ اُس کی مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں مرزا غالب کے ایک قصیدے کا اقتباس دیا گیا ہے جو اس صنف کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے
صبح دم دروازہ خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
خسرو انجم کے آیا صرف میں
شب کو گنجینہ گوہر کھلا
وہ بھی تھی ایک سیمیا کسی نمود
صبح کو راز مہ اختر کھلا
(مرزا غالب)
ان اشعار میں مرزا غالب نے صبح کے منظر کو بہت ہی دلکش انداز میں بیان کیا ہے، جس سے قصیدے کی خوبصورتی اور شاعر کی فنی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اردو شاعری میں قصیدہ کا مقام
قصیدہ اردو شاعری کی اہم صنف ہے جو درباری شاعری میں زیادہ مقبول رہی ہے۔ قدیم زمانے میں قصیدے کو دربار کے شعراء استعمال کرتے تھے تاکہ بادشاہ اور وزراء کی تعریف کر سکیں۔ اردو ادب میں قصیدے کی صنف کو مزید تقویت دینے کے لیے مختلف شعرا نے اس میں بہت سے تجربات کیے ہیں۔ اردو کے نامور شعرا جیسے میر، غالب، اور داغ دہلوی نے قصیدے کو نہایت خوبصورتی سے لکھا اور اس صنف کو ایک نئی جہت دی۔
قصیدہ اور مدح سرائی
قصیدہ بنیادی طور پر مدح سرائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس صنف کو استعمال کرتے ہوئے شاعر نے مختلف شخصیات کی تعریف کی ہے اور اُن کی عظمت کو شاعری کے انداز میں اُجاگر کیا ہے۔ قصیدے میں مدح کے ذریعے شاعر نہ صرف تعریف کرتا ہے بلکہ ممدوح کی زندگی اور اوصاف کو شاعری کے رنگ میں بیان کر کے قارئین کو اُس کے مقام سے آگاہ کرتا ہے۔
اردو قصیدہ کے مشہور شعراء
اردو شاعری میں قصیدہ کے مشہور شعراء نے اس صنف کو خاص اہمیت دی ہے۔ جن شعراء نے قصیدے کو بہترین انداز میں لکھا اور اس صنف کو ترقی دی ان میں
مرزا غالب
شیخ سعدی
میر تقی میر
داغ دہلوی
امیر مینائی
شامل ہیں۔ ان شعراء نے قصیدے میں بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور اپنی زبان و بیان کے جوہر دکھائے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.