مثنوی کی تعریف، وضاحت، اور مشہور مثنویاں
اردو ادب میں مثنوی ایک اہم صنفِ سخن ہے جو داستان گوئی، مذہبی تعلیمات، تاریخی واقعات، اور اخلاقی نصیحتوں کے بیان کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ مثنوی کی روایت عربی اور فارسی ادب سے اردو میں آئی، اور اردو کے بڑے شعرا نے اسے نہایت خوبصورتی سے پروان چڑھایا۔
مثنوی کی تعریف
مثنوی عربی زبان کے لفظ "مثنیٰ” سے ماخوذ ہے، جس کے معنی "دو” کے ہیں۔ شعری اصطلاح میں مثنوی ایک ایسی طویل نظم کو کہا جاتا ہے جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم وزن اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثنوی عموماً ایک ہی بحر میں لکھی جاتی ہے اور اس میں کہانی یا واقعے کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ مثنوی کا انداز نظم سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ اس میں موضوعات کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے زیادہ اشعار کی گنجائش ہوتی ہے۔
مثنوی کی خصوصیات
- موضوع کی وسعت: مثنوی عموماً طویل ہوتی ہے اور اس میں ایک کہانی یا موضوع کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
- شاعرانہ انداز: مثنوی میں زبان شاعرانہ ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سادگی اور روانی کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ قاری آسانی سے کہانی کا لطف اٹھا سکے۔
- بحر اور قافیہ: ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم وزن ہوتے ہیں، جو اسے دیگر شعری اصناف سے منفرد بناتا ہے۔
- موضوعاتی تنوع: مثنوی مذہبی، تاریخی، اخلاقی، رومانی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھی جا سکتی ہے۔
مثنوی اور دیگر اصنافِ ادب کا موازنہ
ادب میں مثنوی کو وہی مقام حاصل ہے جو نثر میں ناول یا افسانے کو دیا جاتا ہے۔ نثر میں جو کام ایک ناول کرتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی انجام دیتی ہے۔ اس میں کہانی کو منظوم انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے ادب میں خوبصورتی اور دلکشی کا اضافہ ہوتا ہے۔
مشہور مثنوی گو شعرا
مثنوی گوئی کا فن اردو شاعری میں بہت قدیم ہے اور مختلف ادوار کے شعرا نے اس صنف کو پروان چڑھایا:
قدیم دور کے مثنوی گو شعرا:
رستمی
نصرتی
سراج دکنی
ملا وجہی
محمد قلی قطب شاہ
بعد کے ادوار کے مشہور شعرا:
میر حسن
میر تقی میر
میر اثر
جرأت
دیا شنکر نسیم
نواب مرزا شوق
مومن خان مومن
مرزا غالب
مشہور مثنویاں اور ان کے شعرا
دنیا کی مشہور مثنویاں اور ان کے تخلیق کار ادب کے میدان میں ان کی شہرت کا باعث ہیں۔
فارسی مثنویاں:
- مولانا رومی: مثنوی معنوی (روحانی تعلیمات پر مشتمل)
- فردوسی: شاہنامہ (ایران کی تاریخ اور اساطیری داستانیں)
- نظامی گنجوی: خمسہ نظامی (پانچ مثنویوں کا مجموعہ)
- امیر خسرو: خمسہ خسرو (نظامی گنجوی کے خمسے کا جواب)
- سعدی شیرازی: بوستان اور گلستان
اردو مثنویاں:
- میر حسن: سحر البیان (رومانی مثنوی)
- دیا شنکر نسیم: گلزار نسیم (داستان گوئی)
- نواب مرزا شوق: بہر حال عشق
- حفیظ جالندھری: شاہنامہ اسلام (اسلامی تاریخ کی مثنوی)
علامہ اقبال کی مثنویاں:
- جاوید نامہ
- اسرارِ خودی
- رموزِ بے خودی
مثنوی کی ادبی اہمیت
مثنوی نے اردو اور فارسی ادب میں ایک منفرد حیثیت حاصل کی ہے۔ یہ صنف نہ صرف کہانی گوئی کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ شاعرانہ تخلیقیت، فکری وسعت، اور ادبی خوبصورتی کا اظہار بھی کرتی ہے۔ مثنوی کے ذریعے شاعروں نے تاریخی واقعات، رومانی کہانیاں، اور اخلاقی نصیحتوں کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔