مجاز مرسل: تعریف، اقسام، صورتیں، اجزا اور اہمیت

مجاز مرسل کی تعریف

مجاز مرسل بلاغت کا ایک خاص پہلو ہے جو ادب میں ایک گہری معنیات اور زیریں لائحہ کا تعارف کرتا ہے۔ کسی کلام میں ایسے لفظ یا الفاظ کا استعمال جو اپنی اصل معنی کے بجائے کچھ اور معنی دیتے ہوں، مجاز مرسل کہلاتا ہے۔ لغوی معنی میں، ‘مجاز’ زبان تک محدود رہتا ہے اور محض الفاظ کی ترتیب بدلنے پر دلالت کرتا ہے۔ اصطلاحی معنی میں، ‘مجاز مرسل’ میں الفاظ ایسے استعمال کیے جاتے ہیں جو براہ راست کسی چیز کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

مجاز مرسل کے کئی پہلوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سمجھنے میں آسان ہوتا ہے کیوں کہ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ یا ترکیبیں باطل معنی کے بغیر بھی سمجھ آ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، “لنگڑا قسم کی باتیں” کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کی باتیں اصل میں لنگڑی ہو رہی ہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ باتیں بےمعنی یا بے قدری ہو رہی ہیں۔

مجاز مرسل کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان تعلق باندھا جاتا ہے۔ اس تعلق یا ربط کی وجہ سے سامع یا قاری کو بات کے اصل مطلب تک پہنچنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جیسے کہ ‘مٹی کھانا’، جو لفظی معنی میں کچھ کھانے سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اصطلاحی معنی میں کسی غیر اہم یا غیر ضروری کام کو انجام دینے کی صورت ہوتی ہے۔

ادب میں مجاز مرسل کے ذریعے بہت ہی عمدہ اور گہرے نقوش چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اس کی قدر اور اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ با مقصد اور بر وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف زبان و ادب کو حسن بخشتا ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔

مجاز مرسل کی اقسام

مجاز مرسل کی اصطلاح ادب میں متعدد معنی اور اقسام کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مقصد کسی چیز کو اس کے اصل معنی کی بجائے متبادل معنی میں پیش کرنا ہوتا ہے، جسے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے اہم اقسام میں شامل ہیں: مجاز بالکنایه، مجاز بالاشارہ، اور مجاز بالمعنی۔

مجاز بالکنایه کی صورت میں، کسی چیز کو ذکر کرکے اس سے مراد کچھ اور لیا جاتا ہے جو اس کے ساتھ متبادل طور پر استعمال ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، “قلم” کو علم یا دانش کا استعارہ بنایا جاتا ہے۔ عملی طور پر، اس قسم کا مجاز ادبی اور تخلیقی تحریروں میں عمومًا استعمال ہوتا ہے تاکہ متن میں خوبصورتی اور گہرائی پیدا کی جا سکے۔

مجاز بالاشارہ میں، کسی چیز کا تذکرہ اس کے کسی خاص پہلو یا خصوصیت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، “ہاتھ” کو کرم یا رحمت کا اشارہ بنایا جا سکتا ہے۔ ادبی اور عوامی بیانیوں میں بالاشارہ کا استعمال، مخاطبین کو کسی اہم پہلو کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

مجاز بالمعنی میں، مراد کے لئے لفظ کا استعمال ہوتا ہے جس سے کوئی خاص مفہوم مراد ہو۔ مثال کے طور پر، “چراغ” کو زندگی یا روشنی کا استعارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا مجاز ادبی تراکیب میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پیچیدہ خیالات کو سادہ اور خوبصورت انداز میں پیش کیا جا سکے۔

مجاز مرسل کی مختلف اقسام کا عملی اہمیت بھی ہے۔ یہ نہ صرف ادبی تحریروں کو دلکش اور مؤثر بناتی ہیں بلکہ قاری کو ایک مخصوص پیغام یا پہلو کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کلاسیکی ادب سے لے کر جدید تخلیقی تحریروں تک مجاز مرسل کی اقسام بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہیں، جو ان کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

مجاز مرسل کی صورتیں

مجاز مرسل کی صورتیں متعدد اور مختلف ہوتی ہیں، جنہیں مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں مجاز مرسل کے مختلف اسلوب کو بڑی دانائی اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً، جب کسی چیز کا نام کسی دوسری چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اسے “مجاز مرسل” کہا جاتا ہے۔ یہ ادبی وسیلہ مخصوص مواقع اور مناظر کو زیادہ جاندار اور پُرتاثیر انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مجاز مرسل کے استعمال کی ایک مثال اردو شعر و شاعری میں ملتی ہے۔ جیسے کہ غالب کا یہ مصرع “دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی”، اس میں “دل” اور “نگاہ” کی جگہ اصل معنوں کے بجائے “محبت” اور “جذبات” کو مراد لیا گیا ہے۔ اس سے شاعر کی بات زیادہ موثر طریقے سے ظاہر ہوتی ہے۔

ایک اور مثال میں، جب کسی شہر کا نام اس شہر میں رہنے والوں کے لئے استعمال کیا جائے۔ جیسے “کراچی نے جیتا”۔ یہاں “کراچی” کا مطلب اس شہر کے باسیوں سے ہے۔ اس طرح کے استعمال سے مضمون کو زیادہ جاندار اور مربوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مزید برآں، اردو نثر میں بھی مجاز مرسل کو بڑی کامیابی سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مثلاً، “قلم” کا استعمال “لکھائی” یا “لکھنے والے” کے لئے متعدد جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے استعمال سے نہ صرف جملے کی خوبصورتی بڑھے گی بلکہ اس کے اثرات اور معنویت میں بھی اضافہ ہو گا۔

اردو ادب میں، مجاز مرسل کی یہ صورتیں ایک اہم جز سمجھی جاتی ہیں جو مصنفین اور شاعروں کو اپنے خیالات اور احساسات کی بہتر ترجمانی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ ادبی تجربے کو نہ صرف گہرا بلکہ زبان کی خوبصورتی اور اظہاریت کو نکھارنے میں بھی مضبوط کردار ادا کرتی ہیں۔

مجاز مرسل کے اجزا اور اہمیت

مجاز مرسل کے اجزا میں بنیادی طور پر دو اہم عناصر شامل ہوتے ہیں: “مُشار الیہ” اور “بدل”. مُشار الیہ وہ لفظ ہے جو حقیقت میں موجود ہوتا ہے جبکہ بدل وہ لفظ ہوتا ہے جو اس کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ دونوں الفاظ میں ایک تھوڑی سی مناسبت موجود ہوتی ہے، لیکن یہ مناسبت بہت عمیق نہیں ہوتی جیسا کہ استعارہ میں ہوتی ہے۔ مجاز مرسل میں بعض اوقات مکمل طور پر مختلف اور غیر متوقع الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو سامعین یا قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ادبی و ثقافتی اہمیت کی بات کی جائے تو مجاز مرسل ایک اہم اور مؤثر ادبی حربہ ہے۔ اردو ادب میں اس کا استعمال نہ صرف اظہار کے دائرہ کو وسیع کرتا ہے بلکہ بات کو خوبصورت اور مؤثر بناتا ہے۔ مجاز مرسل کے استعمال کے ذریعے ادیب اپنے قارئین کو مختلف معنوی سطحوں پر لے جانے کا اہل ہوتا ہے۔ یہ ادبی تکنیک متن میں ایک نئی جہت شامل کرتی ہے جو قارئین کے لیے دلچسپی اور تحیر کا باعث بنتی ہے۔

مزید برآں، مجاز مرسل کا استعمال ادب میں تخلیقی شعور کو فروغ دیتا ہے۔ یہ لکھنے والے کو الفاظ کے کھیل میں ماہر بناتا ہے اور الفاظ کے مختلف معانی اور استعمال کو مزید بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے ذریعے، ادب میں جدت اور انفرادیت پیدا ہوتی ہے اور لکھنے والا اپنے فن میں نئے تجربات کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

مجاز مرسل کی ادبی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نہ صرف انداز بیان کو رنگین اور خوبصورت بناتا ہے بلکہ قارئین کو متن میں مگن کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں مجاز مرسل ہمیشہ سے ایک مقبول حربہ رہا ہے اور اس کے استعمال سے ادب میں گہرائی اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading