مرثیہ: تعریف، وضاحت، ارکان اور مثالیں
مرثیہ اردو شاعری کی ایک خاص صنف ہے جو عموماً کسی فوت شدہ شخصیت کے دکھ اور غم کا اظہار کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ مرثیہ خاص طور پر شہدائے کربلا اور واقعہ کربلا کے بیان کے لیے مخصوص ہے۔ اس صنف میں شاعر درد مندانہ الفاظ میں کسی شخص کی صفات کو بیان کرتا ہے اور اس کے مرنے پر غم و رنج کا اظہار کرتا ہے۔
Table of Contents
مرثیہ کی تعریف
مرثیہ عربی زبان کے لفظ “رثا” سے نکلا ہے جس کے معنی “مردے پر رونا” اور “میت پر آنسو بہانا” کے ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی فوت شدہ شخص کی خوبیاں، اس کی تعریف و توصیف اور اس کے سانحہ وفات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اردو شاعری میں مرثیہ کو زیادہ تر حضرت امام حسین اور دیگر شہدائے کربلا کے حالات و واقعات کے بیان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں شاعر واقعہ کربلا کے جذبات کو بہترین انداز میں پیش کرتا ہے۔
مرثیہ کی خصوصیات
مرثیہ کا خاص مقصد کسی شہید کے غم کو دلوں میں زندہ کرنا اور اُس کے اوصاف اور کارناموں کو شاعری کی صورت میں بیان کرنا ہے۔ اس میں شاعر کرب و الم کو اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مرثیہ زیادہ تر منظوم نظم میں لکھا جاتا ہے اور اس میں روایت کے مطابق خاص ارکان ہوتے ہیں۔
مرثیہ کے ارکان
مرثیہ کئی اہم اجزاء یا ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سے ہر ایک حصہ مختلف مناظر اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ مرثیہ کے نو بنیادی ارکان یہ ہیں
چہرہ
یہ مرثیے کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے جس میں تمہید باندھی جاتی ہے۔ عموماً اس حصے میں حمد، نعت، منقبت، اور فطری مناظر شامل کیے جاتے ہیں تاکہ شعر کے موضوع کا آغاز نرمی سے کیا جا سکے۔
سراپا
سراپا میں مرثیے کا مرکزی کردار، یعنی ممدوح، کے جسمانی حلیے اور حسن و جمال کو بیان کیا جاتا ہے۔ شاعر یہاں ممدوح کی خوبصورتی اور جلال کو مختلف تشبیہوں اور استعارات کے ذریعے پیش کرتا ہے۔
رخصت
رخصت اس حصے کو کہتے ہیں جس میں مرثیہ گو ممدوح کے میدان جنگ کی جانب روانگی کا منظر بیان کرتا ہے۔ اس میں ممدوح کی روانگی کو دلگیر انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس سے اہلِ خانہ کے جذبات اور دکھ کی عکاسی کی جاتی ہے۔
آمد
یہ حصہ اس منظر کی عکاسی کرتا ہے جب ممدوح میدان جنگ میں پہنچتا ہے۔ شاعر میدان جنگ کی شدت اور حالات کو بیان کرتا ہے اور اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ممدوح نے کتنا عظیم حوصلہ اور بہادری دکھائی۔
رجز
رجز میں ممدوح اپنے اوصاف، خاندانی شرافت، اور عظمت کا ذکر کرتا ہے۔ یہ حصہ مرثیے میں حوصلہ اور دلیری کو اجاگر کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے الفاظ کے ذریعے ممدوح کے عزم و حوصلے کو نمایاں کرتا ہے۔
رزم
رزم میں میدان جنگ کے مناظر بیان کیے جاتے ہیں، جہاں ممدوح کی شجاعت اور بہادری کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ شاعر یہاں جنگ کے مناظر کو اپنی فنی مہارت کے ساتھ بیان کرتا ہے تاکہ قارئین اس دور کے حالات کا مشاہدہ کر سکیں۔
شہادت
شہادت میں ممدوح کے شہید ہونے کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں شاعر دکھ اور غم کو دل سوز انداز میں پیش کرتا ہے، جس سے قارئین کو ممدوح کی قربانی کا احساس ہوتا ہے۔
بین
بین میں مرثیہ گو ممدوح کی لاش پر غم اور رنج کا منظر اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔ یہ حصہ مرثیے کا سب سے دردناک اور اثر انگیز حصہ ہوتا ہے۔
دعا
مرثیے کے آخر میں دعا کی جاتی ہے جس میں مرثیہ گو ممدوح کے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہے اور اس کے لیے اچھے الفاظ کہے جاتے ہیں۔
مرثیہ کی مثالیں
اردو مرثیہ گو شعرا نے کربلا کے واقعات کو بڑی محنت اور دل سوزی سے پیش کیا ہے۔ یہاں کچھ مشہور مرثیے کے اشعار دیے گئے ہیں جو مرثیے کی عظمت اور اثر کو ظاہر کرتے ہیں
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
خود نہر علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
(میر ببر علی انیس)
اسی طرح میر ببر علی انیس کے ایک اور مرثیے کا اقتباس دیکھیں
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
(مرزا دبیر)
اردو شاعری میں مرثیہ کا مقام
مرثیہ اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے جس نے کربلا کے الم ناک واقعات کو زندہ رکھا ہے۔ اردو کے مشہور مرثیہ گو شعرا میں میر ببر علی انیس، مرزا دبیر، اور صبا اکبر آبادی شامل ہیں۔ ان شعرا نے واقعہ کربلا کو اپنی شاعری کے ذریعے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ اُن کی تخلیقات آج بھی قاری کے دل میں اُتر جاتی ہیں۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.