مقطع – تعریف اور مثالیں
اردو شاعری میں مختلف اجزاء کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے، اور ان اجزاء میں سے ایک "مقطع” بھی ہے۔ مقطع کو شاعر کے خیالات کے اظہار کا ایک اختتامی مرحلہ سمجھا جاتا ہے، جہاں شاعر اپنے جذبات و احساسات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ یہ اردو شاعری کی روایتی اور اہم صنف ہے جو ایک مخصوص انداز اور معیار پر پورا اترتی ہے۔
مقطع کی تعریف
مقطع کے لغوی معنی کاٹنے کی جگہ یا کسی چیز کے ختم ہونے کی جگہ کے ہیںمقطع وہ شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اپنے تخلص کو استعمال کرتے ہوئے غزل یا نظم کا اختتام کرتا ہے۔ یہ شعر عام طور پر شاعر کی فکری یا جذباتی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں خود کلامی کا انداز بھی ملتا ہے۔ مقطع شاعر کی شخصیت اور اس کے تخلص کو بیان کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہوتا ہے
مثال
آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند
حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند
کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند
ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند
سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند
ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند
حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند
وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند
محمد احم
مقطع کو سمجھنے کے لیے محمد احمد کی ایک غزل لی ہے۔ اس میں
فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند
مقطع ہے۔
اہم
مقطع میں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے : ۔
ا۔ اگر کسی غزل کے آخری شعر میں تخلص موجود نہ ہو تو اسے غزل کا آخری شعر کہا جائے گا مقطع نہیں کہا جائے گا۔
ب۔ اگر غزل کے کسی شعر میں شاعر کا تخلص موجود ہو مگر وہ غزل کا آخری شعر نہ ہو تو اسے بھی مقطع نہیں کہیں گے ۔
ج۔ مقطع غزل کے اختتام کا اعلان کرتا ہے۔
د۔ مقطع قاری کو شاعر کے قریب کر دیتا ہے ۔
ڈ۔ مقطع پر غزل کی تان ٹوٹتی ہے۔
ذ۔ مقطع وہ شعر ہے جس سے غزل اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے ۔
س۔ مقطع غزل کی وحدت کو واضح کرتا ہے ۔
ش۔ بعض اوقات مقطع میں وہ مقصد سمٹ آتا ہے جس کے لیے غزل یا قصیدہ لکھا گیا ہو ۔