میر تقی میر کی غزل پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے کی تشریح
میر تقی میر کی یہ غزل عاشقانہ جذبات، درد، بے قراری، اور محبوب کی بے نیازی کی نہایت دلنشین ترجمانی کرتی ہے۔ اس میں شاعر نے محبت کی پیچیدہ نفسیات کو بڑی لطافت اور گہرائی سے بیان کیا ہے۔ ہر شعر میں میرؔ کی سادگی، جذبات کی شدت، اور زبان کی فصاحت نمایاں ہے۔ غزل میں محبوب کی بے حسی، عاشق کی دیوانگی، اور عشق کے الم کو استعاروں، تشبیہوں اور تہہ دار زبان کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ غزل نہ صرف میر کے فکری و فنی کمال کی مظہر ہے بلکہ اردو غزل کی کلاسیکی جمالیات کی ایک بے مثال مثال بھی ہے۔ اس آرٹیکل میں میر تقی میر کی غزل پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے کی تشریح پیش کی گئی ہے۔
شعر 1
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مفہوم: ہر پتا، ہر بوٹا ہمارے دل کا حال جانتا ہے، صرف وہ گل (محبوب) ہی نہیں جانتا، ورنہ سارا باغ تو واقف ہے۔
تشریح: میرؔ اس شعر میں محبوب کی بے نیازی اور فطرت کی ہمدردی کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے جذبات اور کیفیت عشق سے پوری فطرت، یعنی پتے پتے، بوٹے بوٹے، واقف ہیں۔ لیکن محبوب کی بے خبری یا غفلت کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کے حال سے ناواقف ہے یا جان کر بھی انجان بنا ہوا ہے۔ اس میں ایک طنز بھی چھپا ہے کہ جس کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، وہی بے پروا ہے، جب کہ غیر جاندار اشیاء بھی ان کے دل کی کیفیت کو سمجھتی ہیں۔
شعر 2
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
مفہوم: اگر بس چلے تو وہ عاشق کی بات اس کے کان تک نہ پہنچنے دے، وہ تو فلک کے چاند سورج کی آنکھوں کی پتلی میں اپنا تارا دیکھتا ہے۔
تشریح: یہاں محبوب کے غرور اور خود پسندی کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب اتنا متکبر اور مغرور ہے کہ کسی اور کی بات، چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو، سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ اپنی خوبصورتی اور اہمیت کو آسمان کے سورج و چاند کی آنکھوں میں بھی جھلکتا ہوا دیکھتا ہے۔ اس میں محبوب کی خود پسندی، خود پرستی اور دوسروں کو حقیر جاننے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ شعر عشق کی یک طرفہ نوعیت اور عاشق کی بے بسی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
شعر 3
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
مفہوم: ہم اس متکبر کے آگے خدا کا نام لیتے ہیں، لیکن وہ خود کو اتنا بڑا سمجھتا ہے کہ خدا کی موجودگی کو ہی نہیں مانتا۔
تشریح: اس شعر میں غرور اور خود پرستی کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر محبوب کے غرور پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ خدا کو یاد کرتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے، لیکن محبوب اتنا مغرور ہے کہ خدا کی موجودگی کو بھی نہیں مانتا، بلکہ خود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ اس میں ایک گہرا فلسفیانہ پہلو بھی ہے کہ بعض لوگ حسن و جمال یا دنیاوی برتری کے زعم میں خود کو خدا کے برابر یا بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔
شعر 4
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
مفہوم: دنیا میں عاشق جیسا سادہ کوئی نہیں، جو اپنے نقصان کو بھی محبوب کی محبت میں فائدہ سمجھتا ہے۔
تشریح: یہ شعر عشق کی دیوانگی اور سادگی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق ایسا سادہ دل اور مخلص ہوتا ہے کہ اپنی جان و مال، سکون، عزت، سب کچھ قربان کرنے کے بعد بھی یہی سمجھتا ہے کہ یہ سودا سستا ہے۔ وہ نقصان کو بھی محبوب کی خاطر قربانی سمجھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ یہ سادگی دراصل عاشق کے خلوص کی انتہا ہے، لیکن ساتھ ہی دنیاوی نکتہ نظر سے یہ ایک حماقت بھی لگتی ہے۔
شعر 5
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
مفہوم: دل کے مرض کی دوا کرنا عشق کی دنیا میں رواج نہیں، ورنہ نادان محبوب بھی اس درد کا علاج جانتا ہے۔
تشریح: یہاں شاعر نے عشق کے الم کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ دل کا درد بہت تکلیف دہ ہے اور محبوب بھی اس تکلیف سے واقف ہے، مگر عشق کے دستور میں اس درد کی دوا نہیں ہوتی۔ محبوب اگرچہ سادہ دل ہے، مگر وہ بھی جان بوجھ کر عاشق کی حالت پر رحم نہیں کرتا۔ یہاں “رسم شہر حسن” یعنی محبوبوں کی دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ عاشق کو تڑپانا ہی اصل حسن ہے۔
شعر6
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مفہوم: وہ کم عمر شکاری اپنی فریب کاری پر کس قدر مغرور ہے، جو ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندوں کو بھی اپنا قیدی سمجھتا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر محبوب کے ناز و انداز اور فریب کاری کی بات کر رہا ہے۔ محبوب ایک نوخیز شکاری کی طرح ہے جو عشق کے میدان میں اپنی چالاکی اور حسن کے جال سے عاشقوں کو گرفتار کرتا ہے۔ وہ اتنا مغرور ہے کہ سمجھتا ہے، جو پرندے آسمان میں بھی آزاد اُڑ رہے ہیں، وہ بھی اسی کے قابو میں ہیں۔ اس میں محبوب کے حسن کی طاقت اور اس کی خود پسندی دونوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ شاعر محبوب کی کشش اور دلوں کو اسیر کرنے کی قوت کو ہوا میں اُڑتے پرندوں کو قید کرنے کے استعارے سے بیان کرتا ہے۔
شعر 7
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
مفہوم: محبوب کو محبت، وفاداری، لطف، اور عنایت کا کچھ بھی علم نہیں، وہ تو صرف طنز، کنایہ، رمز اور اشارے کی باتیں جانتا ہے۔
تشریح: اس شعر میں میرؔ نے محبوب کی بے رخی اور غیرمحسوس مزاجی کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب نہ محبت کو سمجھتا ہے، نہ وفاداری، نہ لطف کو جانتا ہے اور نہ ہی عنایت کو، جو کہ عشق کے تقاضے ہیں۔ بلکہ وہ صرف رمز، اشارے، طنز و کنایہ کی باتوں میں ماہر ہے۔ گویا محبوب محض باتوں کے جال بُننے میں مشغول ہے لیکن دل کے سچ، خلوص اور احساس سے نابلد ہے۔ یہ عاشق کی تکلیف کو بیان کرنے والا شعر ہے کہ وہ سچے جذبات لیے کھڑا ہے، لیکن محبوب صرف باتوں کی حد تک محدود ہے۔
شعر 8
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
مفہوم: محبوب اپنے عاشق بے دل، بے تاب اور کمزور پر ایسے ایسے فتنے لاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے، جیسے وہ از خود مصیبتوں کا مرکز ہو۔
تشریح: یہ شعر عشق کی اذیت ناکی اور محبوب کے ستمگر ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق پہلے ہی عشق میں بے دل، بے تاب اور کمزور ہو چکا ہے، لیکن محبوب اس پر مزید ستم کرتا رہتا ہے۔ وہ اسے مختلف فتنے، پریشانیاں، اور دل دکھانے والے حالات میں ڈال دیتا ہے۔ گویا وہ خود فتنے اور آزمایشوں کا باعث ہے۔ یہ شعر محبوب کی سنگ دلی اور عاشق کی بے چارگی کا آئینہ ہے، اور عاشق کی حالتِ زار پر ہمدردی ابھارتا ہے۔
شعر 9
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
مفہوم: چمن کی دیوار میں جو دراڑیں اور سوراخ ہیں، وہ محبوب کے چہرے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اور لوگ انہی سوراخوں سے اسے دیکھنے کا نظارہ کرتے ہیں۔
تشریح: یہاں شاعر نے ایک نفیس استعارہ استعمال کیا ہے۔ چمن (باغ) کی دیوار میں موجود سوراخ، دراصل عاشقوں کے لیے وہ جھروکے بن گئے ہیں جن سے وہ محبوب کے دیدار کی کوشش کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ دیوار کے رخنے گویا محبوب کے چہرے کو چھپا لیتے ہیں، لیکن وہی سوراخ عاشقوں کے لیے امید کا در بن جاتے ہیں۔ لوگ ان چھوٹے سے رخنوں سے بھی دیدار کو غنیمت جانتے ہیں۔ یہ شعر عشق کی شدت، محبوب کے پردہ پوشی، اور عاشق کی دید کے اشتیاق کا عکاس ہے۔
شعر 10
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
مفہوم: میرؔ کا دل خون کا پیاسا ایسا ہے کہ تیز دھار تلوار کے پانی میں بھی اسے ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔
تشریح: یہ غزل کا آخری اور نہایت مؤثر شعر ہے۔ شاعر اپنے دل کی بے قراری، تلخیِ عشق، اور درد کی شدت کو اس انداز میں بیان کرتا ہے کہ وہ تلوار کی دھار پر بہتے خون کو بھی پی جانے کو تیار ہے۔ گویا وہ نہ صرف عشق کی اذیت سہنے کا عادی ہو گیا ہے بلکہ اسے اس اذیت میں بھی ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔ “دم دار آبِ تیغ” یعنی تیز تلوار کے پانی (خون) کو “آبِ گوارا” کہنا اس درد کو خوشی سے قبول کرنے کا استعارہ ہے۔ میرؔ کی کیفیتِ دل یہاں عشق کی انتہا کو چھو رہی ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.