نظام تعلیم میں معلم کی اہمیت
آج کی یہ تحریر نظام تعلیم میں معلم کی اہمیت کو افتخار سندوس نے تحریر کیا ہے، امید کرتے ہیں کہ یہ آپ کو پسند آئے گی۔
کسی بھی نظام تعلیم میں معلم کو وہی حیثیت حاصل ہے جو جسم میں روح کو ہے۔ تعلیمی نظریات، بدلے نصاب اور طریقہ ہائے تدریس میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن کوئی چیز معلم کی جگہ نہ لے سکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کی رونق اسی کے دم قدم سے ہے اس وقت تک نصاب بے معنی اور تعلیمی سرگرمیاں سعی لا حاصل ہیں جب تک استاد اپنی شخصیت کے سحر سے ان میں جان نہیں ڈالتا، معلم معمار قوم ہیں۔
معلم کے بغیر تعلیمی اداروں کی وسیع و عریض اور بلند و بالا پر شکوہ عمارات، جامعہ نظام تعلیم ،جدید اسالیب، تدریسی اور پیش قیمتی تدریسی معاونت بے کار ہیں۔ ان کی افادیت کا انحصار معلم پر ہے کیونکہ یہ معلم ہی ہے جو ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے اور اپنے علم تجربے اور مبالغانہ جوش سے بچے کی ہمہ گیر تربیت کرتا ہے۔
معلم پیشہ پیغمبری ہے اسلام نے معلم کی بہت قدر افزائی کی ہے قران میں معلم کے بارے میں ارشاد ہوا ہے "تم لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا خدا ان کے درجات بلند کرے گا”۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے معلم ہونے پر فخر کیا ہے اور فرمایا ہے "بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی معلم کی فضیلت یوں بیان کی ہے” جس نے مجھے ایک حرف سکھایا گویا اس نے مجھے غلام بنا لیا”۔
استاد تعلیم کو بامعنی اور با مقصد عمل بناتا ہے اور بچوں کے اخلاق و کردار کی تربیت کر کے ان کو کامیاب اور پروقار زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ اس سے بڑھ کر معلم کا کیا اعجاز ہو سکتا ہے کہ استاد کو روحانی باپ کہہ کر پکارا ہے۔ ظاہر ہے باپ تو انسان کو وجود میں لانے کا باعث ہے اور اس کی مادی ضروریات پوری کرتا ہے جبکہ استاد اس کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرتا ہے اور اسے گمراہی سے بچا کر راہ ہدایت پر چلاتا ہے، اسے نیکی کی طرف راغب کرتا ہے ،اور اس کی دنیا وعاقبت سنوارتا ہے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے انقلابات اور اصلاحی تاریک اساتذہ ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ وہ یونان کا عروج ہو یا فرانس کا انقلاب، اصلاح کلیسہ کی تاریک ہو یا عربوں کی کایا پلٹ، یہ سب استاد ہی کے مرہون منت تھے۔
قومیں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اس غرض سے قائم کرتی ہیں کہ وہ اپنی بقا کا تحفظ کریں۔ اپنے نظریات علوم و فنون اور ثقافتی اقدار کی اشاعت کریں اور انہیں ائندہ نسلوں تک منتقل کریں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے قوم زندہ رہتی ہیں جو قومیں اپنے نظریات کو فراموش کر دیتی ہیں وہ اپنی آزادی کھو دیتی ہیں۔ ان نظریات کو تعلیم کے ذریعے استاد قوموں کو زندہ رکھتے ہیں۔
معلم چونکہ معمار قوم ہیں اس لیے ائندہ کی نسلوں کی کردار سازی ان کی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے تمام مفکرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کا مقصد بچوں کے کردار سازی ہے۔ یہ استاد ہی ہے جو اس عظیم مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں میں سچائی ،دیانتداری، عدل و انصاف، ذمہ داری، بے لوث خدمت، خیر خواہی، فیض رسانی، قومی یکجہتی کا جذبہ اور اخلاقی اور روحانی اقدار پیدا کرتا ہے۔ استاد کو پختہ یقین اور گہرا احساس ہوتا ہے کہ قوم کی مضبوطی، اتحاد، یکجہتی اور ترقی اور نئی قوم کی تربیت کی نازک ذمہ داری اسی کے سپرد ہے اور وہ اسے بخوبی انجام دینے کی لگن میں مصروف رہتا ہے۔
تعلیمی ادارے معاشرے کا اہم جز ہوتے ہیں یہ اساتذہ ہی کے دم قدم سے چلتے ہیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں وہی اس شجر کی خون جگر سے آبیاری کر کے اس کو سایہ دار ثمربار بناتے ہیں وہ اس کی بہتری اور نیک نامی کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ اس ادارے کی ترقی ،اس کے لیے خوشحالی اور ادارے کی نیک نامی اس کے لیے باعث و افتخار و انبساط ہوتی ہے۔
یوم معلم یعنی کہ اساتذہ کے احترام کا دن، اساتذہ کی خدمات کی قدردانی کا دن، استاد کی حوصلہ افزائی کا دن، استاد سے ایک نئے جذبے کے ساتھ تجدید عہد کا دن، معاشرے میں استاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا دن ہے ۔پانچ اکتوبر کو یوم معلم منایا جاتا ہے اور اس میں یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ہم کبھی ان زحمتوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے جو کہ اساتذہ نے ہمارے لیے کی۔ استاد وہ باعظمت ہستی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے ہدف انسانیت سے اسے آشنا کرتا ہے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے اسے اگاہ کرتا ہے اسے معاشرے اور ملک کے لیے ایک مفید شہری بناتا ہے جس معاشرے میں جتنا اساتذہ کا احترام ہوگا اتنا ہی وہ معاشرہ علمی اور دوسرے میدانوں میں زیادہ ترقی کرے گا