نظم “آدمی” از سید ضمیر جعفری
تعارفِ نظم
نظم “آدمی” پاکستان کی درسی کتابوں کا حصہ ہے، جو معروف شاعر سید ضمیر جعفری کی کتاب نشاطِ تمنا سے ماخوذ ہے۔ یہ نظم انسانی اقدار کے زوال اور جدید دور کے معاشرتی تضادات پر گہری تنقید پیش کرتی ہے۔ یہ طلبہ کے لیے نہ صرف ادبی بصیرت فراہم کرتی ہے بلکہ معاشرتی اقدار پر غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے، جو کہ اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں انتہائی اہم ہے۔
تعارفِ شاعر
سید ضمیر جعفری (پیدائش: یکم جنوری 1914ء، چک عبدالخالق، جہلم) ایک نامور طنز و مزاح نگار اور شاعر تھے۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔اے کیا اور فوج سے میجر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے راولپنڈی سے اخبار بادشمال شائع کیا اور پاکستان نیشنل سنٹر سے وابستہ رہے۔ ان کی مشہور تصانیف میں کارزار، لہو ترنگ، جزیروں کے گیت، من کے تار، مافی الضمیر، ولایتی زعفران، قریۂ جاں، آگ، اکتارہ، اور ضمیر یات شامل ہیں۔ وہ 12 مئی 1999ء کو نیویارک میں وفات پا گئے اور ان کی تدفین آبائی گاؤں میں ہوئی۔
نظم کا متن اور تشریح
شعر اول:
تھا کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل زر آدمی، قصر آدمی، کار آدمی
کلبلاتی بستیاں، مشکل سے دو چار آدمی
کتنا کم یاب آدمی ہے، کتنا بسیار آدمی
تشریح:
سید ضمیر جعفری اس شعر میں ماضی اور حال کے انسان کی ترجیحات کا موازنہ کرتے ہیں۔ ماضی میں انسان کی شناخت علم، محبت، اور ایثار تھی، لیکن آج کل دولت، عالیشان گھر، اور گاڑیوں کے ماڈل اس کی پہچان بن گئے ہیں۔ شاعر افسوس کرتے ہیں کہ گنجان آبادیوں میں بھی سچے انسان کم یاب ہیں، جبکہ خودغرض اور مادیت پرست لوگ بکثرت ہیں۔ یہ نظم طلبہ کو معاشرتی اقدار پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو کہ HEC، AIOU، اور Virtual University کے نصاب کے تناظر میں اہم ہے۔
شعر دوم:
تشریح:
شاعر جدید دور کے انسان کی بدلتی ترجیحات پر طنز کرتے ہیں۔ پہلے صحت مند جسم خوبصورتی کی علامت تھا، لیکن اب دبلا پتلا جسم فیشن اور خوبصورتی کا معیار بن گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کی دوڑ میں خود زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پیغام طلبہ کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ مادیت سے ہٹ کر زندگی کی اصل اقدار کو سمجھیں۔
شعر سوم:
تشریح:
اس شعر میں شاعر قیس (مجنوں) کی داستان کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قیس نے شادی سے گریز کر کے سماجی مسائل سے خود کو بچایا، جو اس کی ہوشیاری کی دلیل ہے۔ یہ طنزیہ انداز طلبہ کو سماجی رشتوں کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
شعر چہارم:
شاعر جدید انسان کے دوغلے پن پر تنقید کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ دوسروں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتے۔ انسان مذہب کا دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن اس کا عمل اس کے دعووں سے متصادم ہے۔ شاعر اپنی ذات کو اس تنقید کا حصہ بناتے ہیں، جو ان کا طنزیہ اسلوب ہے۔
شعر پنجم:
تشریح:
شاعر جدید تہذیب کی ترقی پر تنقید کرتے ہیں کہ اس نے زندگی کو آسان بنانے کے بجائے موت کو خوفناک بنا دیا ہے۔ پرانے زمانے میں موت سادہ تھی، لیکن اب جدید ہتھیاروں اور حادثات نے اسے ہولناک کر دیا ہے۔ یہ طلبہ کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ ترقی کے ساتھ ذمہ داری بھی لازم ہے۔
سوالات و جوابات
سوال نمبر 1: سید ضمیر جعفری نے پہلے شعر میں ماضی اور حال کا موازنہ کیسے کیا؟
جواب: ماضی کا انسان علم، محبت، اور ایثار کی علامت تھا، جبکہ آج کا انسان دولت، عالیشان گھر، اور مادی آسائشوں کا پجاری ہے۔ یہ موازنہ طلبہ کو انسانی اقدار کے زوال پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو کہ HEC اور AIOU کے نصاب کا اہم حصہ ہے۔
سوال نمبر 2: شاعر کا دوسرے شعر میں گھنی بستیوں میں دو چار آدمی ملنے سے کیا مراد ہے؟
جواب: شاعر کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کے باوجود سچے اور بااخلاق انسان کم یاب ہیں۔ یہ پیغام طلبہ کو معاشرتی اقدار کی اہمیت سمجھاتا ہے، جو کہ Virtual University اور Educational Boards کے نصاب سے ہم آہنگ ہے۔
سوال نمبر 4: نظم میں شاعر نے ظریفانہ انداز کے باوجود انسانی زوال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اپنی رائے دیں۔
جواب: سید ضمیر جعفری نے طنزیہ انداز میں جدید انسان کی مادیت پرستی اور اخلاقی زوال پر افسوس کیا ہے۔ آج کا انسان دولت کی ہوس میں زندگی کی اصل اقدار سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظم طلبہ کو معاشرتی ذمہ داریوں کی اہمیت سمجھاتی ہے، جو کہ HEC کے تعلیمی معیارات کے مطابق ہے۔
سوال نمبر 5: خالی جگہوں پر مناسب الفاظ لگائیں:
- کتنا کم یاب آدمی ہے، کتنا بسیار آدمی
- جتنا بیمار آدمی، اتنا طرحدار آدمی
- کتنا اونچا لے گیا، جینے کا معیار آدمی
- تھا ضمیر جعفری بھی اک مزے دار آدمی
سوال نمبر 6: شاعر نے آخری شعر میں کیا پیغام دیا؟
جواب: شاعر کہتے ہیں کہ جدید تہذیب نے زندگی کو آسان بنانے کے بجائے موت کو خوفناک کر دیا ہے۔ یہ پیغام طلبہ کو ترقی کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو کہ HEC اور AIOU کے تعلیمی اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.