نظم “کھڑا ڈنر” کی تشریح و نوٹس

نظم “کھڑا ڈنر” کی تشریح و نوٹس

آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو نصاب میں شامل سید ضمیر جعفری کی مشہور نظم “کھڑا ڈنر” کی تشریح پیش کر رہے ہیں۔ یہ نوٹس طلباء کے لیے آسان زبان میں تیار کیے گئے ہیں تاکہ آپ امتحانات کی بہتر تیاری کر سکیں۔ اس نظم میں شاعر نے مزاحیہ انداز میں کھڑے ہو کر کھانے (بوفے سسٹم) کے رجحان پر طنز کیا ہے اور مغربی تقلید کی مذمت کی ہے۔

نظم کا تعارف

سید ضمیر جعفری اردو ادب کے معروف مزاحیہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں مزاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی کمزوریوں پر ہلکا پھلکا طنز بھی ملتا ہے۔ نظم “کھڑا ڈنر” میں وہ شادیوں اور تقریبات میں بوفے سسٹم کے ذریعے کھانے کے رجحان کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ شاعر کے مطابق یہ بدتہذیبی مغربی تقلید کا نتیجہ ہے جو ہمارے مشرقی آداب کے خلاف ہے۔

نظم کی تشریح

نظم پانچ بندوں پر مشتمل ہے۔ ہر بند میں شاعر نے کھڑا ڈنر کے مختلف پہلوؤں کو طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہر بند کی تفصیلی تشریح دی گئی ہے

بند نمبر 1

کھڑا ڈنر ہے غریب الدیار کھاتے ہیں
بنے ہوئے شتر بے مہار کھاتے ہیں
اور اپنی میز پر ہو کر سوار کھاتے ہیں
کچھ ایسی شان سے جیسے ادھار کھاتے ہیں
شکم غریب کی یوں فرسٹ ایڈ ہوتی ہے
ڈنر کے سائے میں فوجی پریڈ ہوتی ہے

مشکل الفاظ کے معنی

کھڑا ڈنر: کھڑے ہو کر کھایا جانے والا کھانا (بوفے سسٹم)

غریب الدیار: پردیسی، مسافر

شتر بے مہار: بے لگام اونٹ، مراد بے قابو شخص

شکم: پیٹ

فرسٹ ایڈ: ابتدائی طبی امداد

فوجی پریڈ: فوجیوں کی رسمی مارچ

مفہوم

شاعر کہتا ہے کہ کھڑا ڈنر کھانے والے بھوکے مسافروں کی طرح بے قابو ہو کر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ میز پر چڑھ کر اس شان سے کھاتے ہیں جیسے ادھار کھانا کھا رہے ہوں۔ بھوکے پیٹ کو بھرنے کی یہ کوشش ایسی ہے جیسے فوجی پریڈ ہو رہی ہو، یعنی ہر کوئی جلدی میں اپنی پلیٹ بھرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔

تشریح

اس بند میں شاعر بوفے سسٹم کی افراتفری کو مزاحیہ انداز میں بیان کرتا ہے۔ لوگ تہذیب اور آداب بھول کر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جیسے کبھی دوبارہ کھانا نہ ملے گا۔ شاعر مغربی تقلید پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ رجحان ہماری مشرقی اقدار کے منافی ہے۔

بند نمبر 2

کھڑے ہیں میز کنارے جو ایک پلیٹ لیے
انہی نیکوفتے اپنے لیے سمیٹ لیے
ادھر ادھر کے جو کھانے تھے سب سمیٹ لیے
یہ میز ہو گئی خالی اب اور کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

مشکل الفاظ کے معنی

نیکوفتے: کھانے کی ایک ڈش (کوفتے)

احباب: دوست

فاتحہ ہوگا: میت کے ایصال ثواب کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا

مفہوم

شاعر کہتا ہے کہ میز کے کنارے کھڑا شخص سب اچھے کھانوں کو اپنی پلیٹ میں سمیٹ لیتا ہے۔ اس کی وجہ سے میز خالی ہو جاتی ہے، اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ شاعر مزاحیہ انداز میں کہتا ہے کہ اب صرف پلاؤ بچا ہے، جو فاتحہ کے موقع پر کھایا جائے گا۔

تشریح

یہ بند بوفے کی بدتہذیبی کو اجاگر کرتا ہے۔ لوگ دوسروں کا خیال کیے بغیر کھانا سمیٹ لیتے ہیں، اور شریف لوگ خالی پلیٹ لیے رہ جاتے ہیں۔ شاعر طنزیہ انداز میں اس خودغرضی پر تنقید کرتا ہے۔

بند نمبر 3

تھی ایک مرغ کی ٹانگ اور رقیب لے بھاگا
میرا نصیب بھی جاگا پہ دیر میں جائے گا
کباب اٹھایا تو اس میں لپٹ گیا دھاگہ
ڈنر یہ کیا کیا کہ نہ پیچھا ہے جس کا
نئے اگاہ یہ کیا خبر تھی میں آیا تھا
جب ڈنر کھانے حقیقتوں کو سنبھالے ہوئے ہیں افسانے

مشکل الفاظ کے معنی

رقیب: دشمن، مقابل

نصیب بھی جاگا: قسمت جاگنا، خوش قسمتی

نئے اگاہ: نہ جانتا تھا

افسانے: جھوٹے قصے

مفہوم

شاعر بیان کرتا ہے کہ جب ایک مرغی کی ٹانگ بچی تھی، تو اس کا رقیب اسے لے بھاگا۔ جب اس کی قسمت جاگی اور اس نے کباب اٹھانے کی کوشش کی، تو وہ دھاگے میں الجھ گیا۔ شاعر حیران ہے کہ یہ کیسا ڈنر ہے، جہاں نہ اصول ہیں نہ تہذیب۔

تشریح

اس بند میں شاعر بدانتظامی اور افراتفری کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ لوگ کھانا چھیننے میں مصروف ہیں، اور شریف آدمی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ شاعر اس صورتحال کو افسانوی کہانیوں سے تشبیہ دیتا ہے۔

بند نمبر 4

حقیقتوں کا نہ کہنا زمانہ سازی ہے
یہ شخص دیکھنے میں جو بڑا نمازی ہے
یہی اڑائے گا مرغی جو موٹی تازی ہے
ڈنر کیا ہے یہ کھڑا دوڑ کی سی بازی ہے
لگائی بھوک میں مہمیز جس نے پار ہوا
نہیں تو میری طرح سے ڈنر میں خوار ہوا

مشکل الفاظ کے معنی

زمانہ سازی: خودغرضی، ظاہرداری

بڑا نمازی: پرہیزگار دکھائی دینے والا

اڑائے گا: چالاکی سے لے لینا

مہمیز: تحریک، ترغیب

خوار ہوا: ذلیل ہوا

مفہوم

شاعر کہتا ہے کہ جو شخص بظاہر پرہیزگار دکھائی دیتا ہے، وہی چالاکی سے بہترین کھانا اڑا لیتا ہے۔ یہ ڈنر نہیں، بلکہ دوڑ کی بازی ہے، جہاں بھوکا شخص کامیاب ہوتا ہے، اور شریف آدمی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔

تشریح

اس بند میں شاعر منافقت اور خودغرضی پر طنز کرتا ہے۔ بظاہر نیک لوگ بھی کھانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ شاعر اس رجحان کو مغربی تقلید کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔

بند نمبر 5

وہ ایک میز خواتین گرد صف آرائی
لبوں سے ان کے رواں گفتگو کا فوارہ
میں ایک گوشے میں سہما کھڑا ہوں بےچارا
کہ یہ ہٹیں تو اٹھاؤں میں نانو نان کا پارہ
اسیر ہلکہ خوباں جو مرغ و ماہی میں
تو ہم شہید ستم ہائے کم نگاہی میں

مشکل الفاظ کے معنی

صف آرائی: قطار بنانا

گفتگو کا فوارہ: مسلسل باتیں

سہما: ڈرا ہوا

نان کا پارہ: روٹی کا ٹکڑا

اسیر: قیدی

ہلکہ خوباں: خوبصورت خواتین کا گروہ

ستم ہائے کم نگاہی: بے توجہی

مفہوم

شاعر بیان کرتا ہے کہ خواتین ایک میز کے گرد جمع ہیں اور مسلسل باتیں کر رہی ہیں۔ وہ ایک کونے میں انتظار کر رہا ہے کہ وہ ہٹیں تاکہ وہ روٹی کا ٹکڑا لے سکے۔ کھانا خواتین کے ہجوم میں قید ہے، اور شاعر ان کی بے توجہی سے بھوکا رہ جاتا ہے۔

تشریح

شاعر خواتین کی محفل اور ان کی باتوں کو مزاحیہ انداز میں بیان کرتا ہے۔ وہ اس افراتفری کو مغربی تقلید سے جوڑتا ہے، جہاں تہذیب اور آداب کی پرواہ نہیں کی جاتی۔

امتحانی سوالات کے جوابات

یہاں کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات ہیں جو امتحانات میں پوچھے جا سکتے ہیں

سوال: نظم “کھڑا ڈنر” کا مرکزی خیال کیا ہے؟
جواب: نظم کا مرکزی خیال مغربی تقلید سے پیدا ہونے والی بدتہذیبی اور بوفے سسٹم کی افراتفری پر مزاحیہ طنز ہے۔ شاعر مشرقی آداب کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

سوال: شاعر نے کھڑا ڈنر کو کس طرح پیش کیا ہے؟
جواب: شاعر نے کھڑا ڈنر کو فوجی پریڈ، دوڑ کی بازی، اور افراتفری سے تشبیہ دی ہے، جو لوگوں کی خودغرضی اور بدتہذیبی کو ظاہر کرتی ہے۔

سوال: نظم میں طنز کے کون سے اسلوب استعمال ہوئے ہیں؟
جواب: شاعر نے مزاح، مبالغہ، اور تشبیہات کا استعمال کیا ہے، جیسے “شتر بے مہار” اور “فوجی پریڈ”۔

طلباء کے لیے مشورے

نظم کو بار بار پڑھیں اور ہر بند کے مفہوم کو سمجھیں۔

مشکل الفاظ کے معنی یاد کریں، کیونکہ یہ مختصر سوالات میں پوچھے جاتے ہیں۔

تشریح لکھتے وقت شاعر کے طنزیہ انداز اور مغربی تقلید پر تنقید کو واضح کریں۔

امتحان میں اپنے جوابات کو نظم کے اقتباسات سے مزین کریں۔

اگر آپ کو یہ پوسٹ پسند آئی تو اسے شیئر کریں اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں۔ آپ کے تبصرے ہمیں بہتر مواد تیار کرنے میں مدد دیں گے!


Discover more from HEC Updates

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Index

Discover more from HEC Updates

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading