پروین شاکر کی غزل بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا کی تشریح
پروین شاکر کی یہ غزل جذباتی شدت، فکری گہرائی اور نسوانی احساسات کی عمدہ عکاسی کرتی ہے۔ ہر شعر محبت، جدائی، خودداری اور زندگی کی بےثباتی کا آئینہ ہے۔ شاعرہ نے نہایت دلکش اور موثر انداز میں عشق کے کرب، رشتوں کی شکست، زندگی کے المیے اور وفا کی قیمت کو الفاظ میں ڈھالا ہے۔ یہ غزل نہ صرف ایک عاشق کا درد بیان کرتی ہے بلکہ انسان کی داخلی کشمکش، وقار اور خوابوں کی شکست کا نوحہ بھی ہے۔ پروین شاکر کا لہجہ نرم ہے مگر پیغام گہرا اور چبھتا ہوا ہے، جو قاری کو دیر تک متاثر کرتا ہے۔ اس آرٹیکل میں پروین شاکر کی غزل بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید تشریحات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔ اور گیارہوں جماعت کے مزید اردو نوٹس ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
شعر 1: بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا۔ میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
مفہوم: محبوب کی خاموشی یا بےتوجہی میں بھی ایک اشارہ تلاش کرنا، کیونکہ شاعرہ سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہے، جبکہ محبوب سطحی کنارے پر کھڑا ہے۔
تشریح: یہ شعر محبت میں موجود غیر ظاہر شدہ جذبات اور اشاروں کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ جب بادبان کھلنے سے پہلے کا اشارہ بھی اہم ہوتا ہے، تو وہ سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں، جبکہ محبوب صرف کنارے پر کھڑا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبت میں گہرائی اور شدت کی ضرورت ہوتی ہے، اور صرف سطحی تعلقات سے کام نہیں چلتا۔
شعر 2: یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر۔ جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
مفہوم: محبوب سے بچھڑنا آسان نہیں تھا، لیکن جاتے وقت اس کا مڑ کر دوبارہ دیکھنا دل میں ایک امید کی کرن چھوڑ گیا۔
تشریح: یہ شعر بچھڑنے کے کرب اور اس کے بعد کی امید کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ بچھڑنا آسان نہیں تھا، لیکن جاتے وقت محبوب کا مڑ کر دوبارہ دیکھنا دل میں ایک امید کی کرن چھوڑ گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبت میں جدائی کے باوجود، ایک نظر یا اشارہ دل میں امید اور محبت کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔
شعر 3: کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند۔ اے شبِ ہجراں ذرا اپنا ستارہ دیکھنا
مفہوم: چاند کی چمک اور شکل میں محبوب کی موجودگی کا گماں، اور ہجر کی رات میں اپنے ستارے کی تلاش۔
تشریح: یہ شعر محبوب کی موجودگی اور ہجر کی رات کی شدت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ چاند کی چمک اور شکل میں محبوب کی موجودگی کا گماں ہوتا ہے، اور ہجر کی رات میں اپنے ستارے کی تلاش جاری رہتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبت میں محبوب کی موجودگی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے، اور جدائی کی راتیں بھی امید کی کرن تلاش کرتی ہیں۔
شعر 4: کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے۔ ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
مفہوم: وہ لوگ جن کے نام پر پیچھے ہٹے تھے، آج وہی لوگ مقابلے میں صف آرا ہیں۔
تشریح: یہ شعر معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ وہ لوگ جن کے نام پر پیچھے ہٹے تھے، آج وہی لوگ مقابلے میں صف آرا ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ حالات بدلتے ہیں، اور جو کبھی پیچھے تھے، وہ آج آگے آ سکتے ہیں۔
شعر 5: جب بنامِ دل گواہی ہم سے مانگی جائے گی۔ خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا
مفہوم: جب دل کی سچائی کی گواہی طلب کی جائے گی، تو ہمارا خون سے رنگا پرچم پیش کیا جائے گا۔
تشریح: یہ شعر محبت میں دی جانے والی قربانی کی شدت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ جب دل کی سچائی کی گواہی طلب کی جائے گی، تو ہمارا خون سے رنگا پرچم پیش کیا جائے گا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبت میں سچائی اور وفاداری کے لیے قربانی دی جاتی ہے، اور وہ قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی۔
شعر 6: جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے۔ ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
مفہوم: جہاں جیتنے میں بھی دل کا نقصان ہوتا ہے، وہاں ہارنے میں اور کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
تشریح: یہ شعر محبت میں جیت اور ہار کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ جہاں جیتنے میں بھی دل کا نقصان ہوتا ہے، وہاں ہارنے میں اور کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبت میں جیت اور ہار دونوں میں دل کا نقصان ہوتا ہے، اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
شعر 7: آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لیے۔ جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا
مفہوم: آئینے کی نظر بھی میرے لیے کافی تھی، اب تمہاری نظر میں کیا نیا دیکھوں گی۔
تشریح: یہ شعر محبوب کی نظر کی شدت کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ آئینے کی نظر بھی میرے لیے کافی تھی، اب تمہاری نظر میں کیا نیا دیکھوں گی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ محبوب کی نظر میں ایک خاص شدت اور تاثیر ہوتی ہے جو دل کو بے چین کر دیتی ہے۔
شعر 8: ایک مشتِ خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے۔زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
مفہوم: ایک مٹھی مٹی بھی ہوا کی زد میں ہے، یہ زندگی کی بے بسی کا نشان ہے۔
تشریح: یہ شعر زندگی کی نازکیت اور بے بسی کو بیان کرتا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ ایک مٹھی مٹی بھی ہوا کی زد میں ہے، یہ زندگی کی بے بسی کا نشان ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ زندگی میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی، اور ہر چیز حالات کے مطابق بدل سکتی ہے۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.