ڈھاکہ میں آوں گا – ناول کا تجزیہ

ڈھاکہ میں آوں گا – ناول کا تجزیہ

ڈھاکہ میں آوں گا ناول کو سہیل پرویز نے تحریر کیا ہے۔ آج اس پوسٹ میں ہم اس ناول کا مختصر سا تجزیہ کریں گے۔

پاکستان کے ہر خطہ کے لوگوں کے محب الوطنی پر بےشمار افسانے ناول لکھے گئے ہیں۔مشرقی پاکستان کبھی پاکستان تھا ،بےشمار محب الوطن پاکستانی رہے ہوں گے۔جنہوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائ انہیں، رضاکار کہتے ہیں۔

ناول،،ڈھاکہ میں آوں گا، ایسی ایک خاندان کی کہانی ہے جس کی رگوں میں پاکستان کی محبت خون بن کر دوڑتی تھی۔مصنف کبھی مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش تشریف نہیں لائے،ان کا مشاہدہ اور مطالعہ زبردست ہے۔ناول پڑھ کر بالکل محسوس نہیں ہوتا وہ بنگال کے لئے اجنبی ہیں۔جگہ جگہ انہوں نے بہت خوبی سے بنگلہ الفاظ کا استعمال کیا ہے،جو پڑھ کر قارئین کے کانوں میں رس گھولتا ہوگا ۔

سیاسی پس منظر اور منظر دونوں کو انہوں نے بہت مہارت سے قلمبند کیا ہے۔ گہرائ تک نہیں گئے کیونکہ کہانی کا موضوع الگ تھا۔کہانی ہو یا تاریخ ہو سیاسی واقعات کو پورے شعور کے ساتھ قلمبند نہیں کیا جائے تو ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔مصنف نےشعور و آگہی کا ثبوت دیا ہے۔

،،ڈھاکہ میں آوں گا،، پڑھ کر اکہتر کے واقعات کی صحیح تصویر پورے رنگ و روپ کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔مصنف نے سیاسی تنازعہ پر کم باتیں کیں ،کیوں ،کس لئے،یہ ساری بحث کے بجائے انہوں نے محبت کو بیانیہ بنانا مناسب سمجھا۔مشرقی پاکستانی الگ ہونا چاہتے تھے مصنف نے دیانت داری سے ثابت کیا کہ مغربی پاکستان کے غیر مناسب رویہ کی وجہ بھی اس میں شامل ہے۔

مصنف خود فوجی رہ چکے ہیں اس لئے مشفق جو اس ناول کا ہیرو ہے پاکستانی آرمی کا حصہ ہے،پرجوش ہے،محب الوطن ہے۔مشفق پاکستانی لڑکی سے شادی کرتا ہے۔والد کا انتقال ڈھاکہ میں ہو جاتا ہے ایک بہن اور والدہ پاکستان آجاتی ہیں۔بہت سنگھرش سے گزرتا ہے۔ جنگ چھڑ جاتی ہے،مشفق جنگی قیدی نہیں بن کر فرار ہو جاتا ہے،برما کی طرف رنگوں میں قید میں زندگی کے کئ برس گزار کر وطن واپس آتا ہے،اپنے پیاروں سے ملتا ہے۔ پھر ایک ٹوئسٹ ہے ناول میں مشفق پاکستانی سفیر بن کر اپنی جنم بھومی پر فخریہ واپس آتا ہے۔

پڑھیں دعوی ہے کہانی کے گرفت ،سحر سے آپ نکل نہیں پائیں گے۔

جواب دیں