کنایہ: تعریف، اقسام، اور مثالیں
Table of Contents
کنایہ کی تعریف:۔
کنایہ کا لغوی مطلب “اشارہ” یا “پوشیدہ بات” کرنے کا ہے۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی میں استعمال کیا جائے، اور اس کے ساتھ حقیقی معنی بھی مراد لی جا سکیں تو اسے کنایہ کہتے ہیں۔ مثلاً: “بال سفید ہو گئے”۔ اس جملے میں بال سفید ہونے سے مراد بڑھاپا ہے، مگر بالوں کا سفید ہونا بھی حقیقت ہے۔
شعری مثال:۔
“زندگی کی کیا رہی امید، ہو گئے موئے سیاہ موئے سفید”
یہاں “موئے سیاہ موئے سفید” کا حقیقی مطلب بالوں کا سفید ہونا ہے، جبکہ مجازی مطلب بڑھاپا ہے۔
“بند اس قفل میں ہے علم ان کا، جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتہ”
حقیقی معنی یہ ہیں کہ علم ایک قفل میں بند ہے، اور مجازی معنی میں وہ علم جو حاصل نہ ہو سکے بے فائدہ ہوتا ہے۔
اقسامِ کنایہ:۔
کنایہ کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
کنایہ قریب:۔
وہ کنایہ جس میں کوئی ایسی صفت ہو جو کسی خاص شخصیت یا چیز سے فوراً ذہن کو اس شخصیت کی طرف لے جائے۔
مثال 1:۔
“دعوے تو تھے بڑے ارنی گوئے طور کو”
اس شعر میں “ارنی گوئے طور” حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے، یہ کنایہ قریب ہے کیونکہ فوراً ذہن ان کی طرف جاتا ہے۔
مثال 2:۔
“دامن میں آج میر کے داغ شراب ہے”
یہاں “داغ شراب” کنایہ ہے کہ شاعر شراب نوشی کرتا ہے۔
کنایہ بعید:۔
وہ کنایہ جسے فوراً سمجھنا ممکن نہ ہو بلکہ غور و خوض کے بعد اس کا مطلب سمجھ میں آئے۔
مثال 1:۔
“ساقی وہ دے ہمیں کہ ہوں جس کے سبب بہم، محفل میں آب و آتش و خورشید ایک جا”
یہاں آب، آتش، اور خورشید کی صفات شراب کی طرف اشارہ ہیں، جو فوراً سمجھ میں نہیں آتیں۔
مثال 2:۔
“صبح آیا جانب مشرق نظر، ایک نگار آتشیں رخ سر کھلا”
یہاں سورج کے طلوع ہونے کا کنایہ دیا گیا ہے۔
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.