کہانی میٹھے جوتے
اس آرٹیکل میں بچوں کی کہانی میٹھے جوتے پیش کی جا رہی ہے۔ اس قسم کی مزید کہانیوں سے محظوظ ہونے کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔
ننھے بھائی بالکل ننھے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور اور سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الو بنایا کرتے تھے۔ ایک کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤگی؟‘‘
ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘
’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔
اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھے بھائی؟‘‘
انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘
جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔
’’ارے بےوقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلےگا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔
اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔
عید کا دن تھا۔
آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔
’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘
’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘
ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔ پہلے تو آپا نے ہماری اچھی طرح کندی کی، پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔
یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھارہی تھی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبال جرم کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘
’’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔
’’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔
اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولےگا۔‘‘
ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔
’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔
بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسا تھا جو اتنا لذیذ تھا۔
اور پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچیہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔
اس آرٹیکل میں بچوں کی کہانی میٹھے جوتے پیش کی جا رہی ہے۔ اس قسم کی مزید کہانیوں سے محظوظ ہونے کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے۔
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ (علمو) اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on
Related
Discover more from Ilmu علمو
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Discover more from HEC Updates
Subscribe to get the latest posts sent to your email.