مولانا شبلی ایک مختصر تعارف
مولانا شبلی نعمانی کی ابتدائی زندگی
مولانا شبلی نعمانی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ان کا اصل نام محمدشبلی تھاجو ایک صوفی بزرگ”ابو بکر شبلی” کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ابوبکر شبلی جنید بغدادی کے شاگردوں میں گردانے جاتے تھے۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒسے ارادت، محبت اور ان کے نام کی نسبت کی وجہ سے نعمانی کا لقب اختیار کیا۔
مولانا شبلی 4 جون1857 میں ہندوستان کے ایک ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں بندول میں پیدا ہوئے۔ آپ کےوالد پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھے جو اپنے علاقے میں بہت اچھی شہرت رکھتے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنے والد محترم کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ۔علامہ شبلی نعمانی کو بچپن سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی خود کو کتب بینی کی جانب راغب کرلیا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم مولوی شکراللہ سے حاصل کی ۔ اس دوران مولانا شبلی نعمانی کو مختلف کتب کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع میسر آیا جس سے ان کے علم اور بصیرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ مولانا شبلی نعمانی کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا۔انہوں نے سب سے پہلے عربی اور فارسی زبان سیکھنے پر توجہ مرکوز کی۔ جب دونوں زبانوں پر کچھ عبور حاصل ہو گیا تو مولانا شبلی نعمانی نے مولانا فاروق چڑیا کوٹی سے فلسفہ، ریاضی، ادب، عربی ادب اور معقولات میں فیض حاصل کیا۔اس دوران مولانا شبلی نعمانی نے عبرانی اور سنسکرت زبانیں بھی سیکھ لیں۔
مولانا شبلی نعمانی اور وکالت کی تعلیم
مولانا شبلی نعمانی کے والد محترم پیشے کے لحاظ سے چونکہ خود ایک وکیل تھے اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے کووکالت کے شعبے سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنے والد کے اصرار پر وکالت کا امتحان بھی پاس کرلیا تاہم عدم دلچسپی کی بنیاد پر انہوں نے وکالت کو بطور پیشہ اختیار نہ کیا۔
مولانا شبلی نعمانی اور علی گڑھ میں تعلیم وتدریس
مولانا شبلی نعمانی کو شروع سے ہی درس و تدریس سے لگاؤتھا جس کی وجہ سے وہ علی گڑھ تشریف لےگئے اور یہیں سے علمی و تحقیقی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔اورپھراسی شعبے میں سولہ سال تک تدریس سے وابستہ رہے۔ اُن دنوں علی گڑھ علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ شہر کی علمی وادبی فضا میں ان کی ملاقاتیں سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی اور پروفیسر آرنلڈ جیسے صاحب عِلم حضرات سے ہوئیں جن سے مولانا شبلی نعمانی نے بےحد استفادہ کیا۔علی گڑھ میں قیام کے دوران ہی انہوں نے پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ہی ان کی دو تصانیف سامنے آئیں جن میں "المامون” اور "سیرت النعمان” شامل ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی کامشرق وسطیٰ کا سفر
مولانا شبلی نعمانی کی علی گڑھ میں تھامس آرنلڈ اور دیگر برطانوی اسکالرز سے انتہائی مفید ملاقاتیں ہوئیں جن سے انہیں جدید مغربی نظریات اور افکار سمجھنے کا موقع ملا۔مولانا شبلی نعمانی نے 1892ء میں تھامس آرنلڈ کے ساتھ سلطنت عثمانیہ بشمول شام، ترکی، مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات کا سفر کیا اور وہاں کے معاشروں کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ تعلیمی خدمات پر قسطنطنیہ میں سلطان عبد الحمید ثانی نےمولانا شبلی نعمانی کو تمغا بھی عطا کیا۔ ان کی علمی و ادبی قابلیت نے تھامس آرنلڈ کو شدیدمتاثر کیا۔ مولانا شبلی بھی خود تھامس آرنلڈ سے کافی حد تک متاثر ہوئے ۔ان دوروں کے دوران مولانا شبلی نعمانی کی معروف اسلامی اسکالرز اور محققین سے مفید ملاقاتیں ہوئیں جن سے انہوں نےکافی فیض حاصل کیا۔
مولانا شبلی نعمانی اوراردو ادب
مولانا شبلی نعمانی کااردو ادب کی قد آور شخصیات میں ہوتا ہے۔دیو پپکر ہستیوں میں شمار ہوتا ہے انہوں نے مغربی علوم و فنون کی تندوتیز آندھی میں نہ صرف مشرقی علوم و فنون کو زندہ رکھا بلکہ اپنی سعی ، جستجو اورتحقیق و تدقیق کی مہارت سے اسے آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کیا۔مولانا شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مؤرخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار، مختلف مقالات اور تصانیف میں موتیوں کی مانند چمک رہے ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی اور شاعری
مولانا شبلی نعمانی کو شاعری اور شاعری پر تنقید سے خاص اُنسیت تھی۔ انھوں نے نہ صرف شاعری اور اس کے دیگر لوازمات سے متعلق اپنے نظریات کو "شعرالعجم” میں مفصل بیان کیا ہے بلکہ عملی تنقید کے نمونے "موازنۂ انیس و دبیر” میں پیش بھی کئے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے "موازنے” میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ و استعارے اور دیگر اصناف کی بھی تعریف و توضیح اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہےجس سے ان کے تنقیدی شعور کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
مولانا شبلی نعمانی اور دینی تعلیم
مولانا شبلی نعمانی کچھ عرصہ دیوبند میں تدریس سے وابستہ رہے پھر رام پور چلے گئے جہاں انہون نے مولانا عبدالحق خیرآبادی اور مولوی ارشاد حسین سے فقہ اور حدیث کا علم حاصل کیا ۔ مولانا شبلی نعمانی کی یہ خوش نصیبی تھی کہ انھوں نے اپنے وقت کے جید علماء کرام سے دین کی تعلیم حاصل کی۔
علی گڑھ کالج سے دوری
مولانا شبلی نعمانی نےعلی گڑھ کالج میں تدریسی فرائض انتہائی محنت اور شوق سے انجام دیئے۔ ایک وقت ایساآیا جب آپ نے محسوس کیا کہ اب کالج میں فکری ماحول مایوس کن ہے جس کی وجہ سے مولانا شبلی نعمانی نے آخر کار علی گڑھ چھوڑ دیا۔
مولانا شبلی نعمانی کی حیدرآباد اور لکھنو میں خدمات
سر سید احمد خان کی وفات کےبعد مولانا شبلی نعمانی نے علی گڑھ یونیورسٹی کو باضابطہ طور پر چھوڑدیا اورریاست حیدر آباد کے محکمہ تعلیم میں مشیر بن گئے۔ انھوں نے حیدرآباد کے تعلیمی نظام میں بہت سی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان کی پالیسی سے حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی نے اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنایا۔ اس سے پہلے ہندوستان کی کسی اور یونیورسٹی نے اعلیٰ تعلیم میں کسی مقامی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کیا تھا۔
مولانا شبلی نعمانی اورندوۃ العلماء
1994میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔مولانا شبلی نعمانی اور مولوی عبدالحق نے اس کے قواعد وضوابط مرتب کئے۔ مولاناشبلی نعمانی کا مزاج تعلیمی اصلاحات و انقلاب کا تھا، چنانچہ اس عہد کی اصلاحِ تعلیم کےلئے اٹھنے والی سب سے مؤثر تحریک ندوۃ العلماء سے اول دن سے منسلک ہوے۔اس دوران وہ اس قدرمتحرک رہے کہ انہیں تحریک کے بنیادی فکری بانیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 1905ء میں وہ حیدرآباد چھوڑ کر دار العلوم ندوۃ العلماء منتقل ہو گئے، وہاں انھوں نے تدریس و تعلیم اور نصاب میں اصلاحات کا آغاز کیا۔انہوں نے یہاں پانچ سال تک خدمات انجام دیں ، لیکن علماء کا روایتی طبقہ ان کی اصلاحات و انقلاب کی وجہ سے ان کے خلاف ہو گیا، بالآخروہ 1913ء میں لکھنؤ چھوڑکر اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ چلے گئے۔
دارالمصنفین کا قیام
مولانا شبلی نعمانی، پر اردو زبان میں یورپ کی طرز ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کرنا چاہتے تھے، جہاں سے محققین، علماءاور مصنفین کو تیار کیا جائے اور وہاں سے اسلام اور مسلمانوں پر تحقیقی کام کیا جاسکے۔ مولانا شبلی نعمانی، شروع میں دار المصنفین کوندوہ کے احاطہ میں قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس وقت ایسا نہ کر سکے اور انھیں دار العلوم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے اس کے لیے اپنا بنگلہ اور آم کے باغ کو وقف کر دیا اور اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اس معاملےپر راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے شاگردوں اور دیگر نامور افراد کو خطوط لکھ کر تعاون طلب کیا۔ بالآخر ان کے شاگردوں نے خاص طورپرسید سلیمان ندوی نے اپنے استاد محترم یہ خواب پورا کیا اور اعظم گڑھ میں دار المصنفین قائم کیا۔
ایوارڈز
مولان شبلی نعمانی کی خدمت کے اعتراف میں سلطنت عثمانیہ کی جانب سے انہیں "آرڈر آف مجیدیایوارڈ” سے نوازا گیا۔ برطانوی حکومت نے مولانا شبلی نعمان کو شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔
وفات
مولانا شبلی نعمانی اگست 1914 میں اپنے بڑے بھائی کی بیماری کی خبر پر الہ آباد تشریف لے گئے۔ دو ہفتے بعدان کے بھائی کاانتقال ہوگیا اور وہ کچھ دن بعد واپس اعظم گڑھ لوٹ گئے۔بھائی کے انتقال کے تین ماہ بعد مولانا شبلی نعمانی بھی ستاون برس کی عمر میں 18 نومبر 1914 کو اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔