میاں بشیر احمد ایک تعارف
میاں بشیر احمد نہ صرف رسالہ نگار بلکہ ایک مفکر شاعر اور مصنف تھے جن کی خدمات نہ صرف اردو میں بلکہ تحریک پاکستان میں بھی قابل ذکر ہیں اج ہم اس مختصر تعارف کے اندر میاں بشیر احمد کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
پیدائش
میاں بشیر احمد 29 مارچ 1893 کو پیدا ہوئے وہ میاں شاہ دین ہمایوں کے اکلوتے بیٹے تھے۔
تعلیم
میاں بشیر احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی تعلیم حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے وہاں سے انہوں نے بی اے انرز کیا اور اس کے ساتھ بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔
خدمات
جب میاں بشیر احمد وطن واپس تشریف لائے تو اسلامیہ کالج میں تاریخ کے اعزازی پروفیسر مقرر ہوئے ان کی اہم خدمات میں سے ایک خدمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد میاں شادی ہمایوں کی یاد میں ایک رسالہ جاری کیا جس کا نام ہمایوں تھا یہ اپنی نوعیت کا ایک اعلی علمی و ادبی رسالہ تھا جو کہ 35 سال تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔
1936 میں میاں بشیر احمد نے انجمن اردو پنجاب کی بنیاد رکھی اس کے ساتھ ساتھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی مجلس عاملہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
میاں بشیر احمد نے 1942 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے مجلس عملہ کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 1946 میں سیاسی سرگرمیوں جب شروع ہوئی تو انہوں نے قائد اعظم کی سرکردگی میں مسلم لیگ کے لیے بے حد خدمات سر انجام دیں اور 1946 میں ہی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
میاں بشیر احمد نے تحریک پاکستان کے اندر قائد اعظم کے ہمراہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی تمام سلائیتیں قیام پاکستان کے لیے وقف کر دی ان کو قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
شعر و ادب کا ذوق بھی ان کا نیا نہیں تھا یہ ان کو اپنے والد میاں شہدین ہمایوں سے ورصے میں ملا تھا وہ شاعری میں زار تخلص کرتے تھے ان کا ایک نغمہ جو کہ انہوں نے قائد اعظم کے لیے لکھا تھا بہت ہی مشہور ہوا
ملت کا پاسبان ہے محمد علی جنا ح
چونکہ میاں بشیر احمد ایکس فور یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے تھے اور بیرسٹری بھی پاس کر چکے تھے تو ان کی تاریخ پر بہت گہری نظر تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تحقیقی اور تاریخی انداز نمایاں ہے تحریر کو موثر اور دلچسپ بنانے کے لیے وہ حسب ضرورت ایات قرانی احادیث اور اشعار استعمال کرتے تھے۔
وفات
میاں بشیر احمد تین مارچ 1971 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔