اتحاد عالم اسلام

اتحاد عالم اسلام

آج کی یہ تحریر اطر عباس نے لکھی ہے اس کے اندر عباس نے اتحاد عالم اسلام پر روشنی ڈالی ہے

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالم اسلام محض ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ اس کے پرستار ہر براعظم میں زندگی بسر کرتے نظر آ رہے ہیں بالخصوص براعظم ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے کم و بیش 56 ممالک پر مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار حکومتیں ہیں اس کرہ ارض کا ہر چھٹا آدمی مسلمان ہے مگر مقام صد افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں میں فکر و نظر کی وحدت کا فقدان اور مرکزیت کی شدید کمی ہے

مسلمان آج تنزلی کا شکار ہیں مسلمانوں سے ترقی اور خوشحالی کے چشمے خشک ہو چکے ہیں اس سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں زبان پرستی، علاقہ پرستی، فرقہ پرستی اور رنگ و نسب کے تعصب جیسی بیماریاں جنم لے چکی ہیں

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

جب اقبال نے مسلمانوں کی پستی دیکھی سپین کی بدحالی دیکھی قرطبہ کو دیکھا قرطبہ کی جامعہ مسجد کو گھوڑوں کا استبل بنا دیکھا تو اقبال نے مسلمانوں کی اس پستی کا سبب وحدت و اتحاد میں کمی کو قرار دیا انہوں نے ملت اسلامیہ کو پیغام دیا کہ:

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور اپس میں تفرقہ نہ ڈالو”.

اتحاد ملت اسلامیہ وقت کی اہم ضرورت ہے آج اگر ہم اپنی تاریخ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی ہماری وحدت پارہ پارہ ہوئی تو ہم نے بہت نقصان اٹھایا اج پوری دنیا میں مسلمان ہی پس رہے ہیں کشمیر میں بےگناہ مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے فلسطین میں کتنے گھروں کے چراغ گل کر دیے گئے ہیں کتنے ہی گھر جلا ڈالے گئے ہیں بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا عراق پر دوبارہ حملہ کیا گیا ہزاروں معصوم شہری لقمہ اجل بن گئے اج بھی اگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ذرا غور تو کیجئے ایسا کیوں ہے کیونکہ ہم میں اتحاد نہیں ہے آج ہمارا دشمن ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے ان کا ہدف کوئی ایک علاقہ نہیں، کوئی ایک فرقہ نہیں، کوئی ایک زبان بولنے والے نہیں، بلکہ تمام مسلمان ہیں یہ بحری بیڑے یہ جنگی جہاز یہ سلفر بموں کی برسات صرف اور صرف اس لیے ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ہو جائیں کیونکہ جب بھی مسلمان ایک ہوئے کوئی قوم اس کا مقابلہ نہ کر سکی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی وحدت سے اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست فاش دی غزوہ بدر میں 313 نے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی، غزوہ خندق میں تین ہزار نے ایک لاکھ کو شکست دی اور غزوہ موتہ میں 30 ہزار نے ڈیڑھ لاکھ کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا ہر دور میں مسلمانوں نے اتحاد کے ذریعے بڑے بڑے باطل کو ہرایا۔

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا؟ زور حیدر ،فقر بوذر، صدق سلیمانی

آئیں ہم ذرا قدرت کے مناظر پر غور کرتے ہیں قدرت کے مناظر ہمیں اتحاد کا درس دیتے ہیں اگر ہم ستاروں کو دیکھیں تو ستاروں کی وحدت اندھیروں کو چاک کر دیتی ہے قطرے سے دریا اور ذرے سے صحرا بنتے ہیں اسی طرح مسلمان ایک ہو جائیں تو ایک مضبوط اور مستحکم ملت بن سکتے ہیں اور اگر تفرقے میں رہے تو تباہ و برباد ہو جائیں گے کیونکہ

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

خدا کی قسم اگر مسلمان تمام چھوٹے بڑے فرقے ایک ہو جائیں تو بہت بڑی قوت بن کر ابھریں گے پھر ہمیں اپنے حقوق کے لیے نہ ہی اقوام متحدہ کے پاس جانا پڑے گا اور نہ ہی عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ہی امن کی اپیلیں کرنا پڑیں گی

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دین ہو

ملک و ملت ہے فقط حفظ حرم کا ایک ثمر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

اور اقبال نے بھی کہا:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اطہر عباس کی تحریر کے حوالے سے آپ کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے لازمی دیں۔

جواب دیں