میر انیس کے مرثیے میدان کربلا میں گرمی کی شدت کا تنقیدی جائزہ
یہ نظم میدانِ کربلا کی گرمی کی شدت کو بیان کرتی ہے، جہاں سورج کی تپش اس قدر زیادہ تھی کہ زمین اور آسمان دونوں جھلس رہے تھے۔ پانی کے ذخائر خشک ہو چکے تھے، نہرِ فرات تک جلتی ہوئی معلوم ہوتی تھی، درخت سوکھ چکے تھے، اور جانور بھی بے حال ہو گئے تھے۔ شاعر نے نہ صرف انسانی مصائب کا ذکر کیا بلکہ فطرت اور اس کے اثرات کو بھی انتہائی باریکی سے بیان کیا ہے۔
فنی محاسن
میر انیس کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی منظر کشی ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ اس نظم میں بھی انہوں نے گرمی کی شدت کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ ہر منظر قاری کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
تشبیہات اور استعارات
انیس کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا بے حد خوبصورت استعمال ملتا ہے۔ مثال کے طور پر
“ڈر ہے کہ مثل شمع نہ جلنے لگے زبان”
“پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثل موم خام”
“پانی تھا آگ، گرمی روز حساب تھی”
یہ تشبیہات نظم کے جذباتی اور فکری اثرات کو مزید گہرا کر دیتی ہیں۔
منظر کشی
اس نظم میں میر انیس نے نہ صرف انسانی جذبات بلکہ ماحول کی شدت کو بھی بیان کیا ہے۔ سورج کی تپش، زمین کی جھلساہٹ، پانی کی قلت، جانوروں کی بے بسی – یہ تمام عناصر نظم کو حقیقت کے قریب تر کر دیتے ہیں۔
زبان و بیان
میر انیس کا زبان پر عبور غیر معمولی ہے۔ وہ عربی، فارسی اور ہندی الفاظ کو اس خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں کہ زبان میں شیرینی پیدا ہو جاتی ہے۔ “حدت”، “تب و تاب”، “سرخی اڑی تھی پھولوں سے” جیسے الفاظ نظم کی ادبی شان کو بڑھاتے ہیں۔
نظم کا تنقیدی جائزہ
اس نظم کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت چند اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے
مکمل منظر نگاری
میر انیس کی یہ نظم صرف ایک سادہ بیان نہیں بلکہ ایک مکمل تصویر ہے۔ انہوں نے صرف یہ نہیں کہا کہ گرمی تھی، بلکہ گرمی کی شدت کو محسوس کرانے کے لیے مختلف عناصر کا سہارا لیا ہے۔ مثلاً، پانی کا خشک ہونا، جانوروں کا بے حس و حرکت ہو جانا، درختوں کا جھلس جانا، یہ تمام عوامل نظم کو حقیقت کا عکس بنا دیتے ہیں۔
قیامت خیز گرمی اور کربلا کے مصائب
گرمی کی شدت کو قیامت کی سختیوں سے تشبیہ دے کر میر انیس نے نظم میں ایک اور جہت پیدا کی ہے۔ “پانی تھا آگ، گرمی روز حساب تھی” جیسے اشعار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ میدانِ کربلا میں پیاس اور گرمی کی شدت محض ایک فطری مظہر نہ تھی بلکہ یہ ایک ایسا امتحان تھا جو اہلِ بیت پر مسلط کیا گیا تھا۔
مرثیے کی کلاسیکی روایت
میر انیس نے اس نظم میں مرثیے کی روایتی ہیئت کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی زبان، ان کا اندازِ بیان اور ان کی جذبات نگاری سبھی کلاسیکی مرثیے کے اصولوں پر پورا اترتے ہیں۔
جذباتی تاثیر
اس نظم میں میر انیس نے قاری کے جذبات کو جھنجھوڑنے کا بھرپور انتظام کیا ہے۔ نظم کو پڑھتے وقت قاری نہ صرف گرمی کی شدت کو محسوس کرتا ہے بلکہ وہ اہلِ بیت کے صبر اور استقامت کو بھی دیکھتا ہے۔
علامتی معنویت
میر انیس نے اس نظم میں علامتی زبان کا بھی استعمال کیا ہے۔ “پانی کا آگ بن جانا” صرف فطری مظہر نہیں بلکہ ظلم کی شدت اور مصائب کی انتہا کی علامت بھی ہے۔ “درختوں کا سوکھ جانا” صرف ایک موسمی اثر نہیں بلکہ مظلومیت کی بے بسی کا استعارہ ہے۔